نرینہ اولاد کے حصول کے لیے کسی دوسرے شخص کا اسپرم لینا
سوال:
مجھے اللہ نے بیٹیاں عطاء فرمائی ہیں ، اور نرینہ اولاد کی خواہش ہے ، بیماری کی وجہ سے مردانہ اسپرم بالکل ختم ہوچکے ہیں ، کیا بچہ پیدا کرنے کے لیے اسپرم کسی دوسرے انسان کا لیا جاسکتا ہے؟
جواب:
جس طرح نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا جنسی تعلق حرام ہے،اسی طرح شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے نطفے سے عورت کے رحم میں مصنوعی طریقے سے حمل ٹھہرانا بھی حرام ہے، حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ : شرک کرنے کے بعد اللہ کے نزدیک کوئی گناہ اس نطفہ سے بڑا نہیں جس کو آدمی اُس شرم گاہ میں رکھتا ہے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ (کنز العمال (5/ 314، رقم الحدیث: 12994) نیز اسپرم (مادہ منویہ کے جرثومے ) کی خرید و فروخت بھی شرعاً باطل ہے، اس کی خرید وفروخت کرنا یا عوض ساتھ یا عوض کے بغیر لے کر ایک جرثومہ دوسری عورت کے رحم میں ڈالنا ناجائز اور حرام ہے، لہذا اس عمل سے اجتناب کریں، اور بیٹیوں کی نعمت ملنے پر شکر ادا کردیں، اولاد اللہ تعالیٰ کے نعمت ہے، اور اللہ جل شانہ اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت اس کی تقسیم فرماتے ہیں، جسے چاہیں لڑکے دیں، جسے چاہیں لڑکیاں اور جسے چاہیں دونوں دیں، او ر جسے چاہیں بانجھ رکھیں، بسا اوقات میاں بیوی بظاہر دونوں صحت مند ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی اولاد نہیں ہوتی، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی دونوں یا ان میں سے ایک بانجھ ہو لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ انہیں اولاد کی نعمت سے نواز دیتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بڑھاپے میں بانجھ بیوی سے اولاد کی نعمت سے نوازا ، لہذا اولاد کے معاملہ میں اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا چاہیے،اسی ذات کی طرف رجوع کرنا چاہیے، بیماری سے شفاء اور نرینہ اولاد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے دعائیں کرتے رہیں۔