گھریلو تشدد (تدارک و تحفظ)ایکٹ ،2020ء کا ایک سنگین پہلو
سوال:
محترم جناب!گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک میں جس طرح کی قانون سازی ہورہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یا بین الاقوامی دباؤ میں آکر ملک کو فحاشی اور ہم جنس پرستی کی طرف دھکیلا جارہا ہے، اس کی واضح دلیل ٹرانس جینڈر ایکٹ ہے جس میں ہم جنس پرستی کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔میں نے اسی تناظر میں گھریلو تشدد بل ۲۰۲۱ء کا جائز ہ لیا کہ اس میں بھی یہ خرابی موجود ہے یا نہیں۔جس نوع کی قوانین نافذ کیے جارہے ہیں اس کے پیش نظر یہ بل اس سے خالی نہیں ہوسکتا ہے، مگر میں بل کے مندرجات میں اسے تلاش نہیں کرسکا،کیا آپ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں؟اگر اتفاق کرتے ہیں تو کیا آپ اس کا حوالہ اوروضاحت دے سکتے ہیں؟
جواب:
آپ کا تجزیہ درست اوراندیشہ بجا ہے۔گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے جو بل پارلیمنٹ میں زیر غور ہے ،اس میں یہ چھپا زہر موجود ہے، البتہ شاطروں نے اسے ایسے ڈھکے چھپے لفظوں میں بیان کیا ہے کہ جب تک گہر ی نگاہ نہ ڈالی جائے اس وقت تک اس کا سراغ نہیں ملتا ہے۔اس بل یعنی گھریلو تشدد (تدارک و تحفظ)ایکٹ ،2020ء کی دفعہ2 کی ذیلی دفعہ پانچ کا متن یہ ہے :
’’(پانچ) ’’گھریلو تعلق‘‘ سے اشخاص کے درمیان تعلق مراد ہے جو گھر میں اکٹھے رہتے ہوں، یا کسی بھی وقت رہ چکے ہوں اور خواہ ہم نسبی، شادی، قرابت داری، تبنیت کی رو سے تعلق رکھتے ہوں، یا خاندا ن کے اراکین اکٹھے رہ رہے ہوں یا کسی بھی دیگر وجہ سے عارضی طور پر یا مستقل طور پر ایک مقام پر رہائش پذیر ہوں۔‘‘
اس دفعہ کی تشریح کرنے کے بعد میں اس جانب آتا ہوں جس کاخدشہ آپ نے محسوس کیا ہے۔اس دفعہ کی رو سےگھریلو تعلق کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں :
1- ایک سے زائداشخاص ہوں ۔اشخاص کی تعریف بل میں نہیں ہے، اس لیے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی تعریف لاگو ہوگی، مجموعہ تعزیرات پاکستا ن کی رو سے شخص کی تعریف میں مرد، عورت، بچہ اورشخص غیر حقیقی (ایسوسی ایشن، انجمن ) وغیرہ بھی شامل ہے۔
2- ان اشخاص کے درمیان نسب، زوجیت، قرابت یاتبنیت کا رشتہ ہو۔
3- یا وہ اشخاص کسی بھی وجہ سے عارضی یا مستقل طور پر اکھٹے رہ رہے ہوں یا کسی وقت رہ چکے ہوں ۔
ان تینوں اجزاء کا حاصل یہ ہے کہ:
" جب دویا زیادہ افراد ایک مقام پر کسی بھی رشتے سے عارضی یا مستقل طورپرقیام پذیر ہوں یا رہ چکے ہوں تو ان کا تعلق گھریلوتعلق کہلائے گا۔''
اس تعریف سے چند ایسے نتائج برآمد ہوتے ہیں جو شاید مقننہ کا بھی منشا نہ ہوں، مثلاً :
1- ایک لمحہ کےلیے جو ساتھ رہائش پذیر رہے ہوں، ان میں بھی گھریلو رشتہ ثابت ہوگا؛ کیوں کہ مدت کی کوئی تحدید نہیں گئی ہے۔
2- مدعی(متضرر) اورمدعی علیہ (مسئول الیہ) میں مطلق قرابت کافی ہے، خواہ کسی جہت سے ہو، اس لیے بہت دور کے رشتہ دار بھی اس کے عموم میں شامل ہیں۔
3- حد درجہ عموم کی وجہ سے یہ تعریف درج ذیل صورتوں پر بھی صادق آتی ہے:
الف:-ایک خاندان کے لوگوں نےحج کے موقع پر حرمین کے ہوٹلوں یا منی کے خیموں میں رہائش رکھی ہو
ب:-تفریح کی غرض سے ایک ہوٹل میں قیام کیا ہو
ج:-رشتہ دار تعلیم کی غرض سے ایک ہاسٹل میں رہے ہوں
د:-تجارت یا ملازمت کی غرض سے ایک جگہ اکھٹے رہے ہوں
ھ:-مطلقہ بیوی جو گھر سے نکلنے سے انکار کررہی ہو
و:-کوئی قریبی رشتہ دار جو کسی وجہ سے ساتھ سکونت پذیر ہواور اسے گھر چھوڑنے کا کہا ہو، مگر وہ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہو ۔
شروع کی تین صورتیں اس وجہ سے تعریف میں داخل ہیں کہ لوگ کسی غرض سے عارضی طورپر ہی سہی ایک مقام پر رہائش پذیر ہوئے ہیں ۔آخری دوصورتوں پر بھی تعریف صادق آتی ہے؛ کیوں کہ تعریف میں حق یا ناحق رہائش کی کوئی تفریق نہیں ہے۔
گھریلو تعلق کی تعریف میں یہ تفصیل بھی نہیں ہے کہ رشتہ دارکس حیثیت سے ساتھ رہ رہا ہو یا ماضی میں ساتھ رہا ہو۔ یہ تفصیل نہ ہونے سے اس میں وہ رشتہ داربھی داخل ہیں :
الف:- جو مہمان کی حیثیت سے آئے ہوں
ب:- زیارت اورملاقات کی غرض سے ٹھہرے ہوں
ج:- جو کسی ناگہانی ضرورت سے ٹھہرے ہوں
د:- جنہیں انسانی ہمدردی کے تحت کچھ عرصہ کے لیے رہائش دی گئی ہو۔
یہ تمام صورتیں اس وجہ سے داخل ہیں کہ تعریف میں وقت، مقام اورحیثیت کی تحدید نہیں ہے۔یہ تمام اشخاص قانون کے ظاہر ی الفاظ کے مطابق عرصہ بعیداور مدتِ مدید کے بعد بھی تشدُّد کا دعویٰ کرسکتے ہیں، حالانکہ قانون سازوں کا بھی یہ منشا نہیں ہے اور وہ بھی اس سے اتفاق نہیں کرتے ہوں گے، مگر قانون کے عموم میں یہ صورتیں داخل ہیں۔
اس تعریف کا سب سے سنگین اورقابل مذمت پہلو یہ ہے کہ یہ غیر شرعی تعلقات کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تعریف کے ان الفاظ پرغورکیجیے:
’’کسی بھی دیگر وجہ سے عارضی طور پر یا مستقل طور پر ایک مقام پر رہائش پذیر ہوں۔‘‘
ان الفاظ کی رو سے اگراجنبی مرد اور عورت اکھٹے رہ لیتے ہیں تو ان میں گھریلوتعلق ثابت ہوجاتا ہے۔اس گھریلو تعلق کے قیام کی وجہ سے اگر کوئی ایک دوسرے کے خلاف تشددکا ارتکاب کرلیتا ہے تودوسرے کو اسے گھر سے بے گھر کرنے،معاوضہ حاصل کرنے،ٹریکرپہنانے،سزا دلانے اورجیل بھیجنے کا حق مل جاتا ہے۔زیادہ صاف لفظوں میں اس بل میں غیر شادی شدہ جوڑوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور انہیں حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔
ایک اور پہلو سے اس بل کی سنگینی اور بھی زیادہ ہے۔بل کے اندر مرد وعورت کے درمیان نہیں، بلکہ اشخاص کے درمیان تعلق کو بیان کیاگیا ہے۔اشخاص کے درمیان تعلق اس صورت میں بھی کہلاتا ہے جب ایک عورت عورت کے ساتھ یا ایک مرد مرد کے ساتھ گھریلو تعلق میں ہویا رہ چکا ہو۔اس بنا پراگر کوئی کہے کہ بل میں ہم جنس پرستوں کو بھی حقوق دیےگئے ہیں تو بل کے الفاظ اس کے موقف کی تائید کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ اگر یہ مقدمہ بھی شامل کردیں کہ حق دینے کا مطلب فعل کا قانونی جواز ہے تو یہ بل ہم جنس پرستی کا دروازہ کھولتانظر آتا ہے۔اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوا کہ آپ کا اندیشہ محض اندیشہ نہیں ، بلکہ حقیقت ہے۔