kalpay کمپنی سے معاہدہ کرنے کا حکم



 سوال:
      ایک  کاروباری مسئلہ میں شرعی راہ نمائی درکار ہے، مسئلہ یہ ہے کہ  ہمارا  الیکٹرانک آئٹم کا کاروبار ہے،  ہم اپنی پراڈکٹ مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعہ فروخت کرتے ہیں، جس میں سے ایک طریقہ  "Online E Commerce" کا بھی ہے،  جس میں ہم اپنی پراڈکٹ  اپنی ویب سائٹ اور دیگر   اس طرح کی مارکیٹ سے آن لائن فروخت کرتے ہیں،  ہم چاہتے ہیں ہم اپنے کسٹمرز کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے سکیں، تاکہ کسٹمر کی ضرورت بھی پوری ہو ، اور ہمارے  کسٹمرز کی تعداد بھی بڑھے،  اس سہولت کے پیش ِ نظر ایک طریقہ قسطوں (instalment)  پر اشیاء فروخت کرنے کا  ہے، چوں کہ ہم خود مختلف وجوہات کی بنا پر یہ طریقہ اختیار نہیں کرتے، اس لیے اس سہولت کو حاصل کرنے کے لیے  ہم نے انسٹالمنٹ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنی سے بات چیت کی ہے، ان میں ایک کمپنی "KalPay" ہے۔
انہوں نے جو ہمیں اپنا طریقہ کار بتایا اور  اپنا ایگریمنٹ  بھی دیا  (جو استفتاء کے ساتھ منسلک ہے)  اور  زبانی طور پر بھی ہم نے ان سے  تفصیلات معلوم کی، جس کا حاصل یہ ہے کہ:
اگر کسی کسٹمر کو ہماری پراڈکٹ چاہیے ہو  تو وہ ہماری ویب سائٹ پر آئے گا، اور  وہاں  کسی بھی   پراڈکٹ کو   خریدے گا، اس کے بعد اس چیز کی قیمت  ادا کرنے کے لیے اس کے  پاس مختلف آپشن میں سے ایک "KalPay" کا آپشن ہوگا، اگر وہ اس آپشن کو  منتخب کرے تو    "KalPay" اس پراڈکٹ کی مکمل قیمت ( سروس چارجز کاٹ کر ) ہمیں ادا کردے گا، اور  اس کسٹمر سے وہ رقم  دو، تین یا چار  ماہ  کی   قسطوں میں وصول کرلے گا ، اس کے عوض وہ کسٹمر سے  کسی قسم کے چارجز نہیں لے گا، اور وہ  ہم سے فی پراڈکٹ  5%  سروس چارجز لے گا۔
       اس کا فائدہ کسٹمر کو یہ ہوگا کہ  اس کو جو  پراڈکٹ نقد میں جتنے کی ملنی تھی، اتنی ہی قیمت میں اس کو وہ پراڈکٹ قسطوں پر مل جائے گی، اور اس کو کسی قسم کے اضافی چارجز ادا نہیں کرنے ہوں گے۔ اور ہمیں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں   اپنی پراڈکٹ کے  مکمل پیسے فوری مل جائیں گے،  جس سے ہمارے کسٹمر کی تعداد میں اضافہ ہوگا، اور ہمارا پیمنٹ وصول کرنے کا رسک ختم ہوجائے گا۔
نوٹ:
"KalPay" کے  منسلکہ ایگریمنٹ اور ان سے  بات چیت کرنے سے مزید جو باتیں  واضح ہوئی وہ درج ذیل ہیں:
1. KalPay  ہم سے  خرید وفروخت کا معاملہ نہیں کرتا، بلکہ صرف پیمنٹ کی ادائیگی کی سروس فراہم کرتا ہے،  خریدوفروخت کی انوائس بھی عام خریداروں کی طرح  ہمارے  اور کسٹمر کے درمیان کی ہی بنتی ہے۔
2. KalPay   ہماری پراڈکٹ کی باقاعدہ مارکیٹنگ نہیں کرتا، کسٹمر ہمارے  اسٹور سے ہی سامان خریدتا ہے، البتہ  صرف پیمنٹ کے طریقہ میں  KalPay  کے آپشن کا اضافہ ہوجاتا ہے، تاہم یہ ممکن ہے کہ   بالواسطہ  ایک قسم کی مارکیٹنگ خود ہی ہوجاتی ہے۔
3. اگر کسٹمر پیمنٹ  (یعنی قسطوں کی ادائیگی)نہیں کرسکا تو  ہماری ذمہ داری نہیں ہوگی، بلکہ  یہ  "KalPay" کی ذمہ داری ہوگی، ہم  5%  سروس چارجز دے کر اس پیمنٹ کے رسک سے بری ہوجاتے ہیں۔
4. کسٹمر  اگر وقت پر پیمنٹ نہیں کرسکا، یا وہ درمیان  میں ماہانہ اقساط بڑھانا چاہے تو اس پر  اضافی رقم لاگو ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا تمام تفصیلات کی روشنی میں آپ  سے  یہ درخواست ہے کہ ہمیں اپنے کسٹمرز کو سہولت دینے کے لیے  "KalPay" سے مذکورہ معاملہ کرنا کیسا ہے؟ اگر شرعاً یہ جائز ہو  تو ہم ان سے کام شروع کردیں، اور اگر ناجائز ہوتو اس کا اگر کوئی حل ممکن ہو تو اس کی راہ نمائی فرمادیں۔
 
جواب:
سوال میں بیان کردہ صورت اور منسلک معاہدہ کے مندرجات کے مطابق kalpay کمپنی کے معاملات کے شرعی حکم کا تعلق کمپنی کے مندرجہ ذیل معاملات سے ہے:
1) بیچنے والے (سائل) کو یہ سہولت فراہم کرے گی  کہ وہ خریدار پر واجب الادارقم سائل کو نقد میں ادا کردے گی اور خریدار سے وصولی کی مکمل  ذمہ داری خود لے لے گی، حتی کہ اگر خریدار رقم ادا نہیں کرتا ہے تو kalpay کو سائل سے وصولی کا بھی اختیار نہیں ہوگا۔
2) اس سہولت کے عوض kalpay کمپنی سائل سے اس معاہدہ کے مطابق 5 فیصد سروس چارچز وصول کرےگی۔اور اس سروس چارجز کی وصولی کا طریقہ یہ ہوگا کہ kalpay سائل کو رقم کی ادائیگی کے وقت یہ 5 فیصد منہا کر کے ہی اد اکرے گی۔
3) اسی طرح kalpay کمپنی خریدار سے وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں یا اقساط بڑھانے کی صورت میں اضافی رقم وصول کرے گی۔
اب نمبر وار کمپنی کے مذکورہ تینوں معاملوں کا شرعی حکم بیان کیا جاتا ہے:
1) kalpay (کمپنی) کا سائل (بیچنے والے) کو سامان کی مکمل قیمت ادا کردینا اور وصولی کی مکمل ذمہ داری خود لینا (حتی کہ وصولی نہ ہونے کی صورت میں بھی سائل سے مطالبہ کا اختیار نہ ہونا ) شرعا یہ دین (ادھار) کی خریدو فروخت کا معاملہ ہے  یعنی kalpay (کمپنی) سائل سے اس کا ادھار (وہ دین جو سامان کی خریداری کے عوض ہے) خرید لیتا ہے، گویا کہ اب kalpay (کمپنی) کا ادھار (دین) اس خریدار پر ہے اور سائل کا اب اس ادھار سے کوئی تعلق نہیں ہے اسی وجہ سے خریدار کے ادا نہ کرنے کی صورت میں بھی سائل پر کسی قسم کا مالی بوجھ نہیں ہے ۔ اس طرح ادھار (دین) کی خریداری درست نہیں ہے اور یہ بیع شرعا باطل ہے لہذا یہ معاملہ درست نہیں ہے۔
2) kalpay کمپنی جو 5 فیصد سروس چارجز سائل سے لیتی ہے وہ اس نقد آدائیگی کی سہولت کے عوض لیتی ہے یعنی kalpay جو سائل سے اس کا  ادھار (دین)  خریدتی ہے اس پر 5 فیصد سروس چارچز لیتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ kalpay سائل سے اس کا زیادہ قیمت کا ادھار (دین) کم قیمت پر خرید لیتی ہے (مثلا ۱۰۰روپے کا ادھار ۹۵ روپے میں خرید لیتی ہے)۔ اول شق نمبر ۱ میں گزر چکا کہ یہ ادھار خریداری کا معاملہ ہی درست نہیں ہے اور کم قیمت پر خریدنا اس کو سودی معاملہ بھی بنا دے گا کیونکہ نتیجہ کے اعتبار سے  100روپے کے عوض 95روپے  خرید رہی ہے لہذا اس معاملہ میں سودی معاملہ کا گناہ بھی ہوگا۔
3) kalpay  کمپنی کا وقت پر قیمت کی ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں  اور قسطوں کی تعداد  بڑھانے کی صورت میں اضافی رقم لینا جائز نہیں ہے بلکہ یہ بھی سود ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ kalpay کمپنی کے مذکورہ تینوں معاملات ناجائز ہیں اور نمبر ۲ اور ۳ سودی معاملے ہیں لہذا اس کمپنی کا کاروبار کا طریقۂ کار درست نہیں ہے؛ اس لیے اس کمپنی کے ساتھ منسلکہ معاہدہ کے مطابق معاملہ  کرنا جائز نہیں ہے اور کمپنی کے معاملہ نمبر ۱ اور ۲ میں سائل براہ راست شریک ہوگا کیونکہ ادھار(دین) کی خریداری کا معاملہ سائل سے ہی ہوگا اور سائل ہی سروس چارچز کی شکل میں سود کی ادائیگی kalpayکو کرے گا اور معاملہ نمبر ۳ میں سائل براہ راست شریک نہیں ہوگا کیونکہ وہ اضافی رقم kalpay کمپنی خریدار سے لے گی لیکن اس معاہدہ کی رو  سے اس سودی معاملہ پر سائل کی رضامندی ضرور شامل ہوجائے گی اور سودی معاملہ میں معاون بن جائے گا۔
مذکورہ معاملہ  جس میں بیچنے والے کو نقد مکمل رقم مل جائے اور خریدار کو ادھارپر سامان مل جائےاور kalpayکو مطلوبہ نفع مل جائے    کی متبادل صورت یہ ممکن ہے کہ kalpay کمپنی  سائل سے مطلوبہ سامان خرید لے اور قبضہ بھی کر لے(قبضہ کی جو صورت ممکن ہو مثلا kalpay کمپنی کا کوئی نمائندہ سائل کے پاس آکر سامان پر قبضہ لے لے یا kalpay کمپنی اپنے کسی گو ڈاون وغیرہ میں وہ سامان منگوالےیا جو ممکنہ صورت ہو) اور پھر kalpay کمپنی خریدے ہوئے مال کو  خریدارکے ہاتھ مثلا پانچ فیصد نفع شامل کر کے کل قیمت متعین کر کے   ادھار پر فروخت کردے ۔ ادھار فروخت کرتے وقت قسطیں طے کرلے اور قسطوں میں تاخیر کی صورت میں قیمت میں کسی قسم کا اضافہ نہ کرے۔یعنی جب کوئی خریدار سامان خریدنے کا ارادہ ظاہر کرے اور ادھار پر خریدنا چاہتا ہو تو سائل اس کو مال فروخت نہ کرے بلکہ سائل kalpay کو سامان فروخت کرے اور kalpay اس سامان پر قبضہ کرلے اور پھر kalpay اس خریدار کو قیمت میں اضافہ کرکے سامان فروخت کرے۔kalpay کم قیمت پر سائل سے خریدے اور قبضہ کرنے کے بعد زیادہ قیمت پر خریدار کو فروخت کرے، بعد میں کسی وجہ سے اضافہ نہ کرے۔ ایسا کرنے کی صورت میں سائل کو مکمل رقم نقد کی صورت میں مل جائے گی، خریدار کو سامان ادھار مل جائے گا اور kalpay کمپنی کو 5 فیصد یا جتنا نفع لینا چاہے  مل جائے گا اور سائل کی بکری میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔