بعض بڑی کمپنیوں کا طریقہ کاروبار



سوال :
بعض بڑی کمپنیاں لوگوں سے بطور مضاربت پیسے لیتی ہیں اور پیسے وصول کرتے ہی اگلے دن نفع دینا شروع کردیتی ہیں، لیکن  نفع مقرر نہیں ہوتا،  بلکہ اس طرح کہ 7فیصد سے لے کر 20فیصد تک ہوتا ہے ، کبھی کم کبھی زیادہ؛ تاکہ سرمائے پر نفع سود کے زمرے میں نہ آجائے۔ کمپنی والے کہتے ہیں کہ ہم ادھار پر مال خریدتے ہیں تو جیسے ہی کوئی بطور مضاربت کمپنی کو پیسے دیتا ہے تو کمپنی اسی ادھار میں یہ پیسے دیتی ہے اور اسی مال میں  پیسے دینے والےکا حصہ مقرر کرتی ہے ۔ کمپنی کے ساتھ  بہت لوگ اس طرح کی مضاربت کرتے ہیں اور ہر ایک کا  نفع معلوم کرنا چوں کہ ناممکن ہے تو کمپنی اندازے کے مطابق  نفع دیتی ہے۔ عام طور پر ہمارے تجربے کے مطابق سات فیصد سے لےکر بیس فیصد تک  نفع ملتا ہے؛ اس لیے کمپنی اندازے کے مطابق منافع دیتی ہے یا بڑے پیمانے پر جب نفع آتا ہے تو کمپنی ان سب افراد کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔
 اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح مضاربت جائز ہے جب کہ ہر ایک سرمایہ دینے والے کا  نفع الگ الگ معلوم کرنا ناممکن ہو اور اندازے کے مطابق ہر  ایک کو  نفع ملتا رہے کہ کبھی کم ہو اور کبھی زیادہ؟
 
جواب :
کمپنی اگر سرمائے کے تناسب سے نفع دیتی ہے تو سود ہے اورحرام ہے ۔اگرنفع میں  حصہ دیتی ہے تو نفع کی  مقدار مجہول ہے حال آں کہ نفع کے فیصد کے حساب سے نفع کا متعین ہونا ضروری  ہے۔یہ کافی نہیں ہے کہ نفع سات سے بیس  فیصد کے درمیان ہوگا،اس طرح بھی نفع مجہول رہے گا اور کاروبار ناجائز ہوگا۔یہ عذر  کہ ہر شریک کا نفع معلوم نہیں ہوسکتا، قابلِ قبول نہیں ہے  ۔ پہلے سے ادھار خریدے ہوئے  مال میں بعد میں سرمایہ دینے والوں کو شریک کرنا بھی درست نہیں  ہے۔الغرض اس طرح کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری جائز نہیں ہے۔