ریاست نکاح کے لیے عمر کی حدمقررکرنے کی مجازہے ،وفاقی شرعی عدالت کا حالیہ فیصلہ



سوال:۔قانون  کی رو سے  اٹھارہ سے سال سے پہلے نکاح نہیں ہوسکتا اور اب  وفاقی شرعی عدالت نے بھی قراردیا ہے کہ ریاست  بچوں  کے  نکاح کے لیے عمر کی حد مقررکرسکتی ہے۔اب شرعی عدالت کا شرعی فیصلہ آنے کے بعدعلماء حضرات اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟کیا یہ فیصلہ قبول ہے؟
 
جواب:۔فیصلہ تو قرآن پاک  کا قبول ہے جس سے شریعت بنی ہے پھر حدیث شریف  کاقبول ہے جس سے شریعت کھلی ہے اور پھر فقہ اسلامی  کا قبول ہے  جس سے شریعت پھیلی  ہے۔ان تینوں کا فیصلہ تو روز اول ہی سے قانون اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کےخلاف ہے توپھر علماء کرام تو کجا  ایک عام مسلمان بھی  قانون اورعدالت کا فیصلہ کیسے قبول کرسکتا ہے اورآپ ایک ایسا فیصلہ قبول کرنے پراصرارکیوں فرمارہے ہیں  جوقرآن وسنت کے خلاف ہے۔ قرآن کریم  کے مطابق تو کم سن بچوں کانکاح   ہوسکتا ہے اورحدیث پاک میں بھی اس کی اجازت ہے  اورچاروں  فقہی مذاہب کا بھی اس پر اتفاق ہے  کہ کم عمری کا نکاح جائز ہے البتہ اتنی تفصیل ضرور ہے کہ نابالغ   لڑکا یا لڑکی ازخود نکاح نہیں کرسکتے ہیں بلکہ ان کا ولی  جیسے باپ یا دادا ان کانکاح کرسکتا ہے ۔آنجناب کی طرح پاکستان کے ہر مسلمان کو وفاقی شرعی عدالت سے یہی حسن ظن رکھناچاہیے  کہ وہ شریعت کے مطابق ہی فیصلہ صادر کرے گی مگر اس مسئلے میں عدالت سے سخت فروگزاشت ہوئی ہے۔اب عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں اپیل کی جاسکتی ہے بلکہ دستور کی رو سے ایک عام شہری بھی اس    فیصلے کے خلاف درخواست دے کر اس کو موقوف کراسکتا ہے۔ان سطور کی تحریر  کے وقت تک مجھے عدالتی فیصلہ دستیاب نہیں  ہوسکا ہے، اس لیے فیصلے کے مندرجات پر تبصرہ  کرنے سے قاصر ہوں۔ جب دستیاب ہوجائے گا اور  کوئی استفسار کرے گا تو ان شاء اللہ تفصیل سے اس  کے غیر شرعی ہونے کوواضح کردیا جائے گا۔ فی الحال اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ایک  ایسافیصلہ کیسے شریعت کے مطابق ہوسکتا ہے جو خودصاحبِ شریعت (جناب رسول اللہ ﷺ ،فداہ ابی وامی) کے عمل خلاف ہو ۔