بیٹے کے مال میں باپ کا حق



سوال:۔ہم تین بھائی اوروالد صاحب  ہیں ۔میں سب سے بڑھا ہوں۔گھر اپنا ہے اوروالد کو اپنے والد سے ملا ہے۔والد صاحب  کو مختلف امراض نے گھیرا  اس لیے مجبورا مجھے تعلیم چھوڑنا پڑی اور کاروبار کرنا پڑا ۔کاروبار میں نے ٹیوشن کےذریعے جمع کیے ہوئے پیسوں سے شروع کیا ۔کام میں برکت ہوئی اور آج  سرمایہ اورزمینیں ہیں ۔گاڑیاں بھی ہیں ۔والد کاکام ان کی بیماری کی وجہ سے ختم ہوگیا تھا۔الحمدللہ والد کا علاج ،دوائیاں،چھوٹے بھائیوں کاخرچ اور شادیاں سب کے اخراجات میں نے ہی کیے ہیں اوراللہ پاک توفیق دے تو میری سعادت ہوگی کہ میرا مال میرے والد پر خر چ ہو مگر بھائیوں کا کہنا ہے کہ کاروبار میں ان کا بھی حصہ ہے کیونکہ بیٹے کا مال والد کا ہوتا ہے اور والد کے مال میں تمام اولاد کا حصہ ہوتا ہے۔ اس لیے سب کچھ والد کا شمار ہوگا اوروالد کے مال میں سب کو حصہ ملے گا۔اب اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہےکیا مجھے سب کچھ تقسیم کرنا ہو گا؟بھائیوں کاکہنا ہے کہ انہوں نے معلوم کیا ہے کہ ان کا بھی میرے مال میں حصہ ہے۔
 
جواب:۔گھر تو والد کا ہے کیونکہ ان کو وراثت میں ملا ہے مگرکاروبار اوراس سے جو کچھ اثاثے آپ نے بنائے ہیں وہ تنہا آپ کی ملکیت ہیں۔ بھائیوں کا  آپ کے کاروبار اورجائیداد کو والد کا قراردینا اوروالد کے واسطے سے اس میں حصے کا دعوی کرنا درست نہیں۔شرعاباپ بیٹے میں انتہائی قریبی رشتہ ہونے کے باوجود دونوں  کی ملکیت جدا جدا ہوتی ہے البتہ اگر اولاد محتاج ہو توانہیں باپ کے مال میں سے خرچ ملتا ہے اوراگر باپ تنگدست ہو تو اس کے اخراجات بیٹے کے ذمہ ہوتے ہیں مگرایک دوسرے  پرنان ونفقہ واجب ہونے  کا یہ مطلب نہیں ہے کہ والد اور اولاد کے مال اورجائیداد میں کوئی فرق نہ رہے اورایک کی جائیداد دوسرے کی قرارپائے۔جن صاحب سے بھائیوں نے معلوم کیا ہے انہوں نے بھائیوں کی غلط رہنمائی  کی ہے۔آپ کی ان صاحب سے ملاقات ہو تو انہیں عرض کردیجیے کہ آپ والد کے زیر کفالت نہیں ہیں بلکہ والد آپ کے زیر کفالت ہیں  اوربیٹے کا مال باپ کا نہیں ہوتا ہے البتہ باپ ضرورت مند ہو تو اسے بقدرضرورت بیٹے  کے مال میں سے لینے کا حق ہوتا ہے۔