صدقہ کی نیت سے سودوصول کرنا
سوال:
فرض کریں میرے اکاؤنٹ میں ایک کروڑ ہے جس پر سالانہ لاکھوں کا انٹرسٹ ملتا ہے جو کہ میں نہیں لیتا، وہ لاکھوں بینک میں رہ جاتے ہیں جس سے بینک یا سودی ادارے مضبوط ہوتے ہیں، میرا ارادہ یہ ہے کہ انٹرسٹ کے یہ پیسے استعمال کرنے کے بجائے میں مریضوں میں یا غریبوں میں تقسیم کردیا کروں بلکہ جو لوگ انٹرسٹ نہیں لیتے اور ان کے پاس بڑی دولت ہے وہ بھی غریبوں کی مدد کے لیے انٹرسٹ لےلیا کریں؟ (ڈاکٹرہود چشتی)
جواب:
جس شخص کابینک میں سودی کھاتہ ہو اس پر فوری لازم ہے کہ وہ اسے ختم کرے اور بلاسودی کھاتہ (کرنٹ اکاؤنٹ) میں رقم جمع کرے؛ کیوں کہ سودی معاملہ کرنے یا اس کو جاری رکھنے کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔ اور اگر بینک کا یہ معاملہ مسلمانوں کے ملک میں ہے تو جوسوداُسے ملنے والا ہو وہ بھی وصول نہ کرے ؛ کیوں کہ سود کا وصول کرنابھی ناجائز ہے ۔اگروصول کرچکا ہوتوپھر فقراء پر ثواب کی نیت کے بغیرصدقہ کردے تاکہ حرام رقم سے گلوخلاصی ہوجائے ۔ جولوگ اس نیت سے بینک میں سودی کھاتے کھولتے ہیں یا سودی کھاتے جاری رکھتے ہیں کہ وہ سود وصول کرکے خود استعمال میں نہیں لائیں گے بلکہ غریبوں پر صدقہ کردیا کریں گے وہ غلطی میں مبتلا ہیں۔ ایسے لوگ سودی معاملے کاارتکاب کرکے خود تو گناہ گارہوتے ہیں اورغریبوں کادنیوی فائدہ کرتے ہیں۔یہ سخت نادانی ہے کہ انسان اپنا دینی نقصان کرکے دوسروں کا دنیاوی بھلاکرے اور دوسروں کے دنیوی فائدے کے لیے اپنی آخرت بربادکرے۔ مشرکین مکہ سخت قحط کے زمانے میں جواکھیلتے تھے اورجیتی ہوئی اشیاءخود استعمال میں نہیں لاتے تھے، بلکہ فقیروں پر صدقہ کردیا کرتے تھے، مگر اس کے باوجود ان کاعمل ناجائز اورحرام تھا۔مقصدیہ ہے کہ صدقے کی نیت سے سودوصول کرنے کی اجازت نہیں جیساکہ توبہ کی نیت سے گناہ کی اجازت نہیں اوراس وجہ سے بدپرہیزی کرنا معقول نہیں کہ دواموجود ہے۔