بیع سلم میں مکمل قیمت پر مجلس عقد میں قبضہ



سوال:
میں آن لائن اشیاء فروخت  کرتا ہوں۔جو چیز ملکیت میں نہ ہو یا قبضے میں نہ ہو اسے آگے فروخت نہیں کرسکتے؛ اس لیے میں بیع سلم کا طریقہ اختیارکرتا ہوں۔سلم کی تمام ہی شرطوں کا میں خیال رکھتا ہوں ، مگر ایک شرط  کی  لاجک سمجھنے سے قاصر ہوں  کہ کسٹمرپہلے پوری قیمت اداکرے۔اس کی کیا وجہ ہے؟
 
جواب:
"بیعِ سلم"    کہتے ہیں  مجلسِ عقد میں  نقد رقم  دے کر کوئی چیز ادھار  خریدنا، یعنی   خریدار ، فروخت کرنے والے کو ابتدا  میں پوری  رقم دے، اور ایک متعین مدت کے بعد فروخت کرنے والا  اس کو وہ چیز لاکر دےدے،اور یہ عام بیع سے مستثنی ہے، عام قاعدہ تو یہ ہے کہ معدوم  یا غیر مملوکہ چیز کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے، لیکن شریعت نے لوگوں کی ضرورت کی وجہ سے اس بیع کو چند شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے،  بیعِ سلم کے صحیح ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
(1)   جو چیز خرید رہا ہے اس کی جنس معلوم ہو، کہ وہ کیا چیز ہے، گندم ہے یا جو وغیرہ۔ (2)  نوع  معلوم  ہو کہ وہ کس قسم کی ہو۔(3) صفت معلوم ہو کہ اس کی کوالٹی کیسی ہو۔ (4) مقدار معلوم ہو  ۔  (5) قیمت معلوم ومتعین ہو۔  (6) اس چیز کی مکمل قیمت عقدِ بیع کی مجلس میں فروخت کرنے والے کے سپرد کی جائے۔ (7)  وہ چیز کس جگہ خریدار کے سپرد کی جائے گی وہ جگہ بھی متعین ہو۔  (8)     اس چیز کی ادائیگی کی مدت معلوم ہو کہ خریدا ر کو وہ چیز کب حوالہ کی جائے گی۔ (9) وہ چیز نایاب نہ ہو ، یعنی  اس    چیز  کا   بازار  میں یا علاقہ میں پوری مدت کے زمانہ میں کہیں نہ کہیں دست یاب ہونا ضروری ہے۔ 
اگر ان میں سے کوئی بھی شرط نہیں پائی گئی تو اس طرح کی بیعِ سلم  شرعًا فاسد ہوگی؛ لہٰذا سائل اگر ان تمام شرائط کی رعایت رکھ کر معاملہ کرتا ہے تو وہ جائز ہوگا۔
باقی سوال میں مذکورہ شرط کی وجہ یہ ہے کہ اگر عقد کے وقت خریدار پوری قیمت ادا نہیں کرے گا تو یہ گویاادہار کے بدلے ادہار کا معاملہ ہوجائے گا اور ادہار کے بدلےادہار  کی بیع سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔علاوہ ازیں  بیع سلم کی مشروعیت  کی ایک حکمت یہ ہے کہ بائع کی فوری ضرورت پوری ہوجائے ۔اگر اسے مکمل قیمت ادا نہیں کی جاتی تو سلم کایہ  بنیادی مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔