پرائزبانڈز کی شرعی حیثیت



سوال: 
پرائز بانڈجائز ہے یا جائز نہیں ہے ؟ (شہباز خان ، کوئٹہ)
 
جواب:
پرائز بانڈ کی خرید وفروخت اور اس پر ملنے والا انعام ناجائزا ور حرام ہے،  اس میں سود اور جوا پایا جاتا ہے۔ سود کا وجود تو بالکل ظاہر ہے کہ   کم دے کر زیادہ وصول کیا جاتا ہے ،یہ اضافی وصول ہونے والی رقم سود ہے۔ 
سود کی ایک اورحقیقت جو نزول قرآن سے پہلے بھی سمجھی جاتی تھی یہ تھی کہ قرض دے کر اس پر نفع لیاجائے۔اس کوحدیث میں یوں تعبیر کیا گیا ہے کہ ’’کلّ قرض جرّ منفعة فهو ربوا‘‘ یعنی ہر وہ قرض جو نفع کمائے وہ سود ہے ۔ یہ حقیقت بانڈز پر بھی صادق آتی ہے؛ کیوں کہ بانڈز کی حیثیت قرض  کی  ہوتی ہے،حکومت اس قرضے کو استعمال میں لاتی ہے اورقرضے کے عوض لوگوں سے ایک مقررہ مقدارمیں انعام کاوعدہ کرتی ہے اورپھر بذریعہ قرعہ اندازی  انعامی رقم لوگوں میں  تقسیم کردی جاتی ہے۔یہی انعامی رقم جو قرض کے بدلے دی جاتی ہے، سود ہے۔
اسی طرح پرائزبانڈ ز میں جوا بھی شامل ہے ۔لوگ اس غرض سے بانڈزخریدتے ہیں کہ ممکن ہے ان کی تھوڑی رقم زیادہ مقدارمیں رقم کھینچ کرلائے اوریہ سارامعاملہ محض بخت واتفاق  پر مبنی ہوتا ہے،  جسے شرعی زبان میں قمارکہاجاتا ہے اورقمار بھی ناجائز ہے۔ [المائدة: 90] شرح معاني الآثار (2/313، كتاب الكراهة، ط: حقانیة)