مشترکہ قرضہ کا حکم
سوال:
میں نے اپنے دوست سے ایک بلڈنگ خریدی اور دس فیصد بیعانہ کی رقم ادا کردی، مگر بقیہ رقم کی ادائیگی سے پہلے دوست کا انتقال ہوگیا۔ میرے دوست کے وارثوں میں سے بیوہ اور ایک بیٹا اوربیٹی ہیں، ورثاء میں مرحوم کی جائیداد کے سلسلے میں اب جھگڑے شروع ہیں، بیوہ اوربیٹے کا مجھ سے الگ الگ سے مطالبہ ہے کہ رقم ان کو اداکی جائے۔میں نے بیس فیصد رقم مرحوم کی بیوہ کو ادا کردی ہے اور ان کے بیٹے کو مطالبے پر بقیہ قیمت میں سے ایک قیمتی کار دی ہے۔اب اس سلسلے میں میں کیا کروں؟ بیوہ کو پوری رقم دے دوں یا بیٹے کو؟اگر کسی ایک کو دیتا ہوں تو دوسراناراض ہوتا ہے۔
جواب:
دوست کی وفات کے بعدبیعانہ کے علاوہ جو رقم رہ گئی ہے وہ آپ پر دوست کے ورثاء کا قرضہ ہے اوراس میں مرحوم کے سب ورثاء اپنے حصص کے بقدرشریک ہیں۔اب آپ کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ آپ سارا قرضہ کسی ایک وارث کو اداکردیں۔اگرآپ کسی ایک کوادائیگی کریں گے توبقیہ ورثاء اس میں خودبخود اپنے حصص کے بقدرشریک سمجھے جائیں گے، مثلاً آپ نے بیوہ کو ادائیگی کی اور بیٹے اوربیٹی کو اس میں سے اپنااپنا حصہ وصول ہوگیا تو آپ بری الذمہ ہوں گے، لیکن اگر ان کو اپنا اپنا حصہ وصول نہ ہوا تو آپ ان کے حصوں کے ضامن ہوں گے اور ان کو آپ سے اپنے حصص کے مطالبے کا حق ہوگا۔
اس اُصول کی رو سے جو بیس فیصد رقم آپ نے بیوہ کو ادا کی ہے،اگر مرحوم کے بیٹے اور بیٹی کو اس میں سے اپنا اپنا حصہ وصول نہ ہو تو ان کو آپ سے مطالبے کا حق ہوگا۔جو کار آپ نے مرحوم کے بیٹے کو دی ہے ،اس میں بیوہ اوربیٹی کو اختیار ہے چاہیں تو اس کار میں اپنے حصص کے بقدرشریک ہوجائیں اور چاہیں تو بیٹے سے نقد رقم میں اپنے حصص کا مطالبہ کریں اور اگر وہ ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک پر راضی نہیں ہیں توانہیں آپ سے اپنے حصے کے مطالبے کا حق ہے۔ مرحوم دوست کا جو قرضہ آپ پر ہے اس میں آٹھویں حصے کی حق دار بیوہ ہے اور بقیہ میں بیٹے کا حصہ بیٹی کے مقابلے میں دوگنا ہے،اسی تناسب سے آپ کو قرضہ لوٹاناچاہیے۔
تاہم اگر تمام ورثاء قرض کی رقم کسی ایک وارث کو حوالے کرنے پر متفق ہوجائیں تو آپ اسے پوری رقم حوالے کرنے سے بری الذمہ ہوجائیں گے