سونا چاندی اور کرنسی کی خرید و فروخت کی بعض جائز و ناجائز صورتیں
سوال:
کیا قسطوں پر یا ادھار سونا چاندی کی خرید و فروخت جائز ہے؟ پرانے سونے کو نئے سونے کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ بیچنا یا نئے نوٹوں کو پرانے نوٹوں کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ بیچنا جائز ہے؟ اور کرنسی کی آن لائن خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
قسطوں پرسونے چاندی کی خریدوفروخت نہیں ہوسکتی ہے،اس کی وجہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ سوناسونے کے بدلے نہ بیچو مگر جب وہ برابربرابر ہوں اوردونوں طرف سے کوئی کمی بیشی نہ کرو، اور چاندی چاندی کے بدلے نہ بیچومگر جب وہ برابر ہوں اور دونوں طرف سے کوئی کمی وبیشی نہ کرو، اوران میں سے ادہار نقد کے بدلے فروخت نہ کرو۔ [حدیث نمبر: 2177] اس حدیث کی رو سے اگر خریدار اسی مجلس میں پوری قیمت ادانہیں کرتا یا دوکاندار پوراسودا ادا نہیں کرتا تو معاملہ حرام ہوجاتا ہے۔
اگر پیسوں کے بدلے سونا یا چاندی خریدی جائے توپھر بھی یہی حکم ہے کہ ہاتھوں ہاتھ اسی مجلس میں مکمل سودا ہوناچاہیے،کسی ایک طرف سے تھوڑا سا ادہار بھی ناجائز ہے۔اگر سونے کے بدلے دوکاندار کو چیک دیا تو وہ بھی ادہار کے حکم میں ہے اورناجائز ہے البتہ اگر اسی مجلس میں آن لائن دوکاندار کے اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کردی جائے تو جائز ہے۔
یہ جو تفصیل بیان ہوئی کہ معمولی ادہار بھی ناجائز ہے، یہ سونے چاندی کے خریدوفروخت کے متعلق ہے ،اگر سونایا چاندی قرض دیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔
پرانے سونے کانئے سونے سے تبادلہ ہو تو پھر بھی دونوں کا وزن میں برابرہونا شرط ہے۔حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ سوناسونے کے بدلے اورچاندی چاندی کے بدلےبرابربرابربیچو،جس نے زیادہ لیاتو یہ زیادتی سود ہے۔[مسلم شریف: 1584]
اگر کسی کو پرانا سونا بیچنا ہو اور اس کے بدلے نیاخریدنا ہوتو اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ پرانا سونا بیچ دے اورقیمت لے لے اور پھر دوسراسودا کرکے اس قیمت سے نیا سونا خریدلے اورقیمت اداکرکے سونا قبضے میں لے لے۔اس طرح دونوں سودے الگ الگ ہوجائیں گے اورجائز ہوجائیں گے۔
اگردوکاندار پرانے سونے کو پالش وغیرہ کرکے اوراسے نیابتاکرنئے سونے کی قیمت میں فروخت کرتا ہے تو دھوکا اورفریب کی وجہ سے یہ بھی ناجائز ہے۔چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے اوردھوکا اورفریب دینے والا آگ میں ہوگا۔[طبرانی کبیر: 10234]
جیسا کہ بیان ہوا کہ سونا چاندی خریدتے وقت ادہار ناجائز ہے ،اسی طرح کرنسی کی خریدوفروخت کے وقت بھی ادہارناجائز ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک لاکھ کے ڈالر خریدے جائیں اورلاکھ ادا کرکے ڈالر بعد میں قبضہ کیے جائیں یانوے ہزار اسی وقت اداکیے جائیں اوربقیہ دس ہزار کی ادائیگی بعد میں کی جائے۔
ایک ہی ملک کی کرنسی ہو تو نئے اورپرانے نوٹوں کی قیمت میں فرق رکھنا بھی ناجائز ہے، مثلاً پانچ ہزار کا پرانانوٹ ساڑھے چار ہزار میں فروخت کرنا ناجائز ہے یا پانچ ہزار کے نئے نوٹ ساڑھے پانچ ہزار میں خریدنا ناجائز ہے۔ جو لوگ عید کے موقع پر نئے نوٹ زیادہ قیمت پر خریدتے ہیں وہ سود کاارتکاب کرتے ہیں ۔جن دوکانداروں کو ریزگاری کی ضرورت ہوتی ہے وہ اگر ریزگاری اس کی قیمت سے زیادہ پر خریدتے ہیں تووہ بھی سودی معاملہ کرتے ہیں۔ بسوں اورمنی کوچوں والے جو کھلے پیسے زیادہ قیمت پر خریدتے ہیں وہ بھی ناجائز کرتے ہیں۔
البتہ مذکورہ صورت میں جس طرف سے رقم کم دی جارہی ہے وہ اس کرنسی کے علاوہ کوئی چیز ساتھ ملاکر فروخت کرتا ہے اور اضافی رقم وصول کرتا ہے تو یہ جائز ہوگا، مثلًا: پانچ ہزار کے نئے نوٹوں کے ساتھ کوئی چاکلیٹ وغیرہ رکھ کر ایک ہی عقد میں پانچ ہزار اور کچھ سو روپے میں فروخت کرتا ہے تو یہ جائز ہوگا؛ کیوں کہ پانچ ہزار روپے پانچ ہزار روپے کے مقابلے میں ہوں گے، اور اضافی رقم اس چیز (مثلًا: چاکلیٹ) کے بدلے میں ہوگی۔
کرنسی کے آن لائن کاروبار میں جو لوگ کرنسی خریدتے ہیں اورکرنسی قبضے میں آنے سے پہلے فروخت کردیتے ہیں ان کے معاملات بھی ناجائز ہیں۔