مروجہ ناجائز معاملات



سوال:
اگرآپ بازاروں میں رائج  ناجائز معاملات  کے بارے میں اپنے کالم میں کچھ ارشاد فرمادیں گےتو مجھ سمیت بہت لوگوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔میں بہت ممنون ہوں گا۔ 
 
جواب:
مختلف بازاروں میں مختلف  قسم کے ناجائز معاملات رائج ہیں ،، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس کے سارے معاملات جیسے: خرید وفروخت، کرایہ پر دینا اور لینا اور کھیتی باڑی کرنا وغیرہ سب شریعت کے مطابق جائز اور درست ہوں؛ تاکہ اس کی روزی حلال ہو، حرام اور ناجائز معاملات سے بچنا ضروری ہے،  لیکن ان ساری جزئیات کا احاطہ کرنا یہاں مشکل ہے۔
البتہ اصولی  طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ شریعت ِ مطہرہ میں خرید وفروخت کے جائز ہونے کے لیے بہت سی بنیادی شرائط  کا لحاظ رکھنا ضروری ہے،  ان شرائط میں  بعض کا تعلق  اس معاملہ کے منعقد ہونے سے ہوتا ہے، پھر اس (انعقاد کی شرائط ) میں  سے کچھ کا تعلق  عقد کرنے والے سے ہوتا ہے، مثلاً  یہ کہ عقد کرنے والا عاقل اور معاملہ کا شعور رکھنے والا ہو، اور جانبین سے معاملہ کرنے والے الگ الگ افراد ہوں، ایک ہی آدمی خریدنے اور بیچنے والا نہ ہو۔ اور کچھ کا تعلق  خود  نفسِ معاملہ سے ہوتا ہے، مثلا  خریدنے یا بیچنے والے میں سے ایک معاملہ کا ایجاب کرے تو دوسرا فریق اسی  کے مطابق قبول کرے۔ اور  کچھ کا تعلق بدلین (خریدی جانے والی چیز اور اس کے ثمن)  سے  ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ  عقد کے وقت ان کی مالیت قائم ہو یعنی وہ مال ہو۔ اور کچھ کا تعلق  مبیع یعنی خریدی جانے والی چیز سے ہوتا ہے،  مثلاً  وہ موجود ہو، معدوم نہ ہو،    اور وہ چیز مملوکہ ہو اور بیچنے والے کی ملکیت میں ہو،   شرعاً مال ِ متقوّم ہو، اس کے حوالہ کرنے پر قدرت بھی ہو۔
اور بعض شرائط کا تعلق معاملہ کے نافذ ہونے سے ہوتا ہے، یہ دو شرطیں ہیں: بیچنے والی کی  چیز پر ملکیت ہو یا اس کی ولایت اور اختیار اس کو حاصل  ہو، اور اس میں بیچنے والے کے علاوہ کسی اور کا حق نہ ہو۔
بعض  شرائط کا تعلق  معاملہ کی صحت  ودرستی سے ہوتا ہے، مثلاً  یہ کہ وہ  کسی وقت کے ساتھ مقید نہ ہو،اور مبیع (بیچی جانے والی چیز) معلوم اور متعین ہو، اور اس کا بدل (ثمن) بھی معلوم ہو ، لہذا مجہول چیز کی خرید وفروخت درست نہیں ہے، نیز   اس خرید وفروخت میں کوئی فائدہ بھی ہو، اس میں کسی قسم کی فاسد شرط نہ ہو،  پھر اس کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اسی طرح  ادھار معاملہ میں  مدت متعین ہو، مجہول نہ ہو،  منقولی چیز ہو تو اس کو فروخت کرنے سے پہلے اس پر قبضہ بھی کرلیا ہو،  او دو ایسی چیزیں  جن کی  جنس ایک ہواور وہ  قدر (کیلی ہونے یا وزنی ہونے ) میں بھی متحد ہوں  تو خرید وفروخت میں ان کا برابر ہونا اور دونوں جانب سے نقد ہونا  ضروری ہے، یعنی جس مجلس میں خرید وفروخت ہو اسی میں جانبین سے قبضہ بھی پایا جائے۔
یہ اجمالاً اور اختصاراً خرید وفروخت کی کچھ شرائط کا ذکر ہے، معاملات میں ان کا خیال رکھا جائے، اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ وہ معاملہ سودی لین دین، رشوت، جھوٹ، خیانت ، دھوکا دہی ، جوا وغیرہ جیسے گناہوں پر بھی مشتمل نہ ہو، اس کے علاوہ اگر کبھی کسی خاص مسئلہ میں راہ نمائی کی ضرورت ہو تو وہ سوال لکھ کر ارسال کردیجیے۔ نیز جامعہ دارالعلوم کراچی  کے مفتی عبد الرؤف سکھروی صاحب دامت برکاتہم  کی  ایک کتاب  ”لعنت والے گناہ اور ناجائز معاملات“ کے نام سے  مطبوعہ  ہے، اس کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔ (الفتاوى الهندية (3 / 2)