مدرسے کے سفیر کا چندے میں سے کمیشن رکھنا



سوال:
  ہمارے یہاں  مدرسہ میں مہتمم اور بعض دیگر اساتذہ مختلف لوگوں کے پاس جاکر مدرسہ کے لیے چندہ کرتے ہیں، خاص طور پر شعبان رمضان وغیرہ میں ،   تو آیا اس کے لیے مدرسہ کا مہتمم یا وہ اساتذہ  کو اس چندے میں سے اپنا کمیشن لے سکتے ہیں، یعنی اپنا کمیشن نکال کر باقی رقم مدرسہ میں جمع کرادیں، اس سے مدرسہ کا بھی فائدہ ہوجائے گا، اور وہ اساتذہ اپنا کام بھی تندہی سے کریں اور اس کا معاوضہ بھی مل جائے گا۔
 
جواب :
مدرسہ کا مہتمم یا دیگر اساتذہ جو مدرسہ کی ضرویات کے لیے مختلف معاونین کے پاس جاکر چندہ کرتے ہیں ان کے لیے اپنی تنخواہ کے علاوہ چندہ کی رقم سے کچھ حصہ اپنے لیے کمیشن کے طور پر لینا یا انتظامیہ کا ان کو اس طرح کمیشن دینا جائز نہیں ہے۔
مدرسہ کا مہتمم یا دیگر اساتذہ اگر مختلف لوگوں کے پاس جاکر چندہ وصول کرتے ہیں تو  اس کام کے لیے  ان کی الگ سے کچھ تنخواہ مقرر کردی جائے یا چندہ والے ایام کی تنخواہ ڈبل کردی جائے، اس طرح مدرسہ کا   کام بھی ہوجائے گا اور سفراء کو اپنی محنت کا عوض بھی مل جائے گااور مدرسہ کی خدمت میں حسن کارکردگی کا ذریعہ بھی بنے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولو) (دفع غزلًا لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلًا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورًا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان."
(6/ 56، کتاب الاجارۃ،  باب الاجارۃ الفاسدۃ، ط: سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"و منها: أن تكون الأجرة معلومةً. ومنها: أن لاتكون الأجرة منفعةً هي من جنس المعقود عليه، كإجارة السكنى بالسكنى و الخدمة بالخدمة."
(4/ 411،  کتاب الاجارۃ، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ط: رشیدیہ)