بالغ بیٹےکو اپنے ساتھ رہائش رکھنے پر مجبورکرنا
سوال:
اگرکسی کابیٹابالغ ہواوربرسرروزگار ہواوروہ والدین سے الگ رہنا چاہے تو والدین اس کوساتھ رہنے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟ الگ رہنے سے اس کامقصد یہ ہے کہ اس کی بری حرکات پر کوئی اسے روکے نہیں اور جو اس کے من میں آئے وہ کرگزرے۔کیا والد اگر اسے اپنے ساتھ رکھتا ہے توگناہ گار تو نہیں؛ کیوں کہ لڑکابالغ ہے اوراپنے اخراجات خوداٹھاسکتا ہے؟ (محمدشفیع،جرمنی)
جواب:
اگر بیٹا بالغ اور غیر شادی شدہ ہے، لیکن اس کے بگڑنے کا اندیشہ ہے، اور فتنہ وفساد کا خوف ہے تو والد اس كو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرسکتا ہے، جیسے بیٹا اگر بالغ ہو، لیکن ناسمجھ ہو اور اپنے مال کی حفاظت نہیں کرسکتا ہو تو والد کو اس کے مال کی حفاظت کی ولایت حاصل ہوتی ہے، اسی طرح اگر اس کے بگڑنے کا اندیشہ ہو تب بھی والد کو یہ حق حاصل ہوگا، فتنہ او ر فساد کو دور کرنے کے لیے یا اپنے آپ کو عار سے بچانے کے لیے، اس لیے کہ آدمی کو اس کے بچے کے بگڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے عار دلائی جاتی ہے۔
تاہم اگر بیٹا بالغ، سمجھ دار ہے، اور فتنہ وفساد کا خوف بھی نہیں ہے، یا وہ شادی شدہ ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ والدین سے الگ رہنا چاہے تو والدین اسے اپنے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرسکتے، تاہم ایسی اولاد کو بھی موقع ومحل کی مناسبت سے شفقت ومحبت اور حکمت کے ساتھ سمجھانا اور فکر کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔جیساکہ قرآن مجید میں ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّايَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ} [التحریم: 6]
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن (اور سوختہ) آدمی اور پتھر ہیں، جس پر تندخو (اور) مضبوط فرشتے متعین ہیں، جو خدا کی (ذرا) نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے، اور جو کچھ ان کو حکم دیا جاتاہے اس کو (فورًا) بجالاتے ہیں۔ (بیان القرآن، للتھانوی)
لیکن ملحوظ رہے کہ علیحدہ رہائش رکھنے کی صورت میں بھی لڑکے کے ذمے والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک واجب ہوگا، خصوصًا جب کہ والدین خدمت یا نفقے کے محتاج ہوں تو بیٹے کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ کچھ وقت نکال کر والدین کی خدمت کے امور انجام دے اور ان کے نفقے کا انتظام کرے۔
المبسوط للسرخسي (5 / 212):
"ثم الغلام إذا بلغ رشيدًا فله أن ينفرد بالسكنى، و ليس للأب أن يضمه إلى نفسه إلا أن يكون مفسدًا مخوفًا عليه، فحينئذ له أن يضمه إلى نفسه اعتبارًا لنفسه بماله؛ فإنه بعد ما بلغ رشيدًا لايبقى للأب يد في ماله، فكذلك في نفسه، و إذا بلغ مبذرًا كان للأب ولاية حفظ ماله، فكذلك له أن يضمه إلى نفسه، إما لدفع الفتنة، أو لدفع العار عن نفسه؛ فإنه يعير بفساد ولده. "
فتاوی شامی میں ہے:
"حاصل ما ذكره في الولد إذا بلغ أنه إما أن يكون بكرًا مسنةً أو ثيبًا مأمونةً، أو غلامًا كذلك فله الخيار، و إما أن يكون بكرًا شابةً، أو يكون ثيبًا، أو غلامًا غير مأمونين فلا خيار لهم، بل يضمهم الأب إليه."
(3/569، باب الحضانۃ، ط؛ سعید)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4 / 43):
"و أما التي للرجال، فأما وقتها فما بعد الاستغناء في الغلام إلى وقت البلوغ، و بعد الحيض في الجارية إذا كانت عند الأم أو الجدتين، و إن كانا عند غيرهنّ فما بعد الاستغناء فيهما جميعًا إلى وقت البلوغ؛ لما ذكرنا من المعنى، و إنما توقت هذا الحق إلى وقت بلوغ الصغير و الصغيرة؛ لأنّ ولاية الرجال على الصغار و الصغائر تزول بالبلوغ كولاية المال، غير أنّ الغلام إذا كان غير مأمون عليه فللأب أن يضمّه إلى نفسه، و لايخلي سبيله كي لايكتسب شيئًا عليه، و ليس عليه نفقته إلا أن يتطوّع، فأمّا إذا بلغ عاقلًا و اجتمع رأيه و استغنى عن الأب و هو مأمون عليه؛ فلا حقّ للأب في إمساكه، كما ليس له أن يمنعه من ماله؛ فيخلي سبيله فيذهب حيث شاء، و الجارية إن كانت ثيبًا و هي غير مأمونة على نفسها لايخلي سبيلها و يضمّها إلى نفسه، و إن كانت مأمونة على نفسها؛ فلا حقّ له فيها و يخلي سبيلها و تترك حيث أحبت، و إن كانت بكرًا لايخلي سبيلها و إن كانت مأمونةً على نفسها؛ لأنها مطمع لكل طامع و لم تختبر الرجال فلايؤمن عليها الخداع."