چراگاہ کی گھاس کی خریدوفروخت



سوال :
چراگاہ کی گھاس کی خرید وفروخت کیسی ہے؟  شرعًا درست ہے یا نہیں؟ چراگاہ کی زمین کسی کی مملوکہ ہو، مالک  اس کی بھرپور حفاظت  کرتاہو، دوسرے لوگوں کے جانوروں کو اس سے روکتاہو،  دیگر لوگوں کے پاس جانور ہوں،  لیکن ان کے پاس چراگاہ نہ ہو، تو کیا وہ شخص اپنے چراگاہ کی  گھاس دیگر لوگوں پر فروخت کرسکتا ہے؟ شرعًا اس کا کیا حکم ہے؟ اگر شرعًا ایسا کرنا درست نہیں تو کیا کوئی دوسری صورت ہے  کہ جانور والا شخص چراگاہ سےفائدہ اٹھائے،اور چراگاہ والے  کو اجرت مل جائے؟
 
جواب :
جو گھاس بغیر بیج بوئے اور بغیرکھادوپانی دیےزمین میں اُگے، وہ اصلاًمباح ہے، چاہے مملوکہ زمین میں اُگے یا غیر مملوکہ زمین میں اُگے،  کاٹنے سے پہلے اس کی خریدوفروخت جائزنہیں، اسی طرح کسی دوسرے کو کاٹنے سے منع کرنا بھی درست نہیں، البتہ  اگر زمین کے مالک نے باڑھ لگاکر چراگاہ  کو محفوظ کرلیا ہو تو دوسرے لوگوں کو مالک کی اجازت کے بغیر اس کی زمین میں داخل ہونے اور جانوروں کو چرانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
زمین کے مالک کےلیے گھاس کی خریدو فروخت کی جائزصورت یہ ہے کہ گھاس کاٹ کرفروخت کرے یاپھرزمین کے جس حصے پر گھاس ہے، وہ حصہ گھاس  کے خریدار کو گھاس کے علاوہ کسی اور منفعت کے لیےاتنے  وقت کے  کرایہ پر دے  جس میں وہ گھاس کاٹ سکے۔(رد المحتار علی الدر المختار، 6/440، بدائع الصنائع، 6/193)
اور اگر مذکورہ زمین کے مالک نے گھاس خود اُگائی ہوتو یہ اُس کی ملکیت  ہوگی، دوسرے لوگوں کے لیے مملوکہ زمین سے اس کی اجازت کے بغیر گھاس کاٹنے کا جانوروں کو چرانے کی اجازت نہیں ہوگی، خواہ اس نے زمین کے گرد باڑھ نہ لگائی ہو، نیز اس صورت میں زمین کے مالک کے لیے گھاس کو کاٹے بغیر بیچنا بھی جائز ہوگا۔