شکرانے کےنفل اورسجدہ شکر



سوال:
آج کل سوشل میڈیا پر  ایک بحث  چل رہی ہے کہ   شکرانے کے نوافل  حضرت محمد ﷺ سے ثابت نہیں ہیں؛ اس لیے اس کو پڑھنا اسلام میں اضافہ کرنے کےمترادف ہے۔اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
محمد اسحاق،میانوالی 
 
جواب:
نمازِ شکر کا پڑھنا آنحضرتﷺ سے ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے موقع   پرسیدھے اپنی چچازاد بہن حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر داخل ہوئے ،غسل فرمایا اور ہلکی قراءت فرماکر آٹھ رکعات  نماز ادا کی۔ اس نماز  کو  "صلوٰۃ الفتح "  اور "صلوٰۃ الشکر"  بھی کہتے ہیں  اور چوں کہ چاشت کے وقت  ان نوافل کی ادائیگی کی گئی تھی؛  اس لیے  "صلوٰۃ الضحی ٰ" بھی کہتے ہیں  ۔بہرحال  اس نماز کو جو نام  بھی دیا جائے ،اصل غرض اللہ تعالی  کا شکر ہی ادا کرنا تھا۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ  کو جب  بدر کے دن       ابوجہل کی موت  کی خبر   ملی تو آپ ﷺ نے    نماز شکر ادا کی، نیز رسول اللہ ﷺ سے مختلف مواقع پر سجدۂ شکر کرنا بھی ثابت ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ رسول ﷺ کے پاس جب کوئی خوش کن خبر آتی تو آپ ﷺ اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے؛ لہذا    کسی  نعمت کے مل جانے پر یا  کسی  مصیبت کے ٹل جانے پر سجدۂ شکر ادا کرنا جائز ہے  اور مکمل نماز پڑھنا شکرکا اعلی درجہ ہے۔
سجدہ شکر کی صورت یہ ہے کہ تکبیر کہہ کرانسان سجدے میں چلا جائے اوراللہ تعالی کی حمداورتسبیح بیان کرے اورپھر دوسری تکبیر کہہ کرسجدے سے سراٹھالے، مگرفرض نماز کے بعد یامکروہ اوقات میں ایسا کرنے سے گریز کرے۔  سجدہ شکر سے متعلق امام ابو حنیفۃؒ  کی طرف منسوب  یہ جملہ کہ   " و کان أبو حنیفة لایراهاشیئًا" کا   مطلب فقہاء نے یہ  بھی بیان کیا ہےکہ  حضرت امام صاحب  "سجدۂ شکر"  کو سنت نہیں سمجھتے تھے اوریہ مطلب بھی لیا ہے کہ آپ "سجدۂ شکر" کو مکمل شکر  نہیں سمجھتے  تھے ؛ کیوں کہ کامل شکریہ مکمل نماز کی صورت میں ادا ہوتاہے جس کو نماز شکر کہتے ہیں۔   (تفسير ابن كثير (8/ 511    ) سنن الدارمي (1/ 406) فتاوی تاتارخانیہ:484 ج2)الفتاوى الهندية (1/ 136)