حاجیوں کے ساتھ معلم کی ضرورت



سوال:
حج کا موسم ابھی نہیں ہے،  مگر میرا سوال حج کے متعلق ہے۔کرونا کی وبا کے بعد بہت ہی مخصوص تعداد میں لوگ حج کا فریضہ اداکرسکتے ہیں،  مگر جب یہ وبا نہیں تھی تو الحمدللہ مجھے کئی بار حج جیسی عظیم عبادت کی سعادت حاصل ہوئی ہے، جس پر میں خداتعالی کا شکر گزار ہوں۔مجھے کہنا یہ ہے کہ حج کی سعادت کم لوگوں کو ملتی ہے اور عام طورپر لوگ ایک  ہی مرتبہ حج کرپاتے ہیں،  مگرجولوگ حج کرتے ہیں ان کو دیکھ  کردل کڑھتا  ہے۔حج کرنے جاتے ہیں، مگر حج کے افعال کیسے ادا کیے جائیں گے اس سے ناواقف ہوتے ہیں،  بلکہ بہت سے  تو حج کے افعال غلط ادا کرتے ہیں۔آپ ہی بتائیں اگر کوئی شخص نماز کا رکوع یاسجدہ درست ادا نہ کرے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے؟  تو جو لوگ حج کے اعمال درست ادا نہیں کرتے  ان کا حج کیسے درست ہوسکتا ہے؟مجھے   جب بھی حج کرنے کا موقع ملاتو میں نے لوگوں کی مدد کی کوشش کی، مگر اکیلا انسان کتنوں  کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس کا کوئی بہتر حل تجویز کریں گے۔
 
جواب :
آپ  کی فکر قابلِ تحسین ہے۔حج کے مناسک سیکھنے  اور انہیں سنت کے مطابق ادا کرنے کی اولین ذمہ داری تو خود حاجی پر عائد ہوتی ہے؛ کیوں کہ حج فرض ہے اور فرض کو سیکھنا بھی فرض  ہے۔اسلام کا حکم ہے کہ کسی عمل کی ادائیگی سے پہلے اس کا ضروری علم حاصل کرلیا جائے۔اگرتجارت کا ارادہ ہو تو حلال وحرام کے اَحکام  پہلےمعلوم کرلیے جائیں اوراگر نکاح  کرنا ہوتوپہلے نکاح  سےمتعلق ضروری علم حاصل کرلیاجائے۔اس مقصد کے تحت نبی اکرم ﷺ نے حج سے بہت پہلے اس کا اعلان فرمادیا تھا، چنانچہ صحابہ کرام نے پہلے سے  ہی اس کی تیاری شروع فرمادی تھی۔ ہمارے ہاں تیاری کا مطلب ظاہری اسباب کامناسب  بندوبست سمجھا جاتا ہے، مثلاً رہائش  اچھی ہو اورحرم شریف سے قریب سے قریب تر ہو، زادِراہ معقول مقدارمیں ہو اورسفری دستاویزات مکمل ہوں۔ان مادی اسباب کا بندوبست بھی ضروری ہے، مگران سے مقصود یہ ہے کہ حج مبرور نصیب ہو اورحج مبرور کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ حج کے ارکان اورافعال سنت کے مطابق ادا ہوں ۔
حاجی کے بعدیہ ذمہ داری علماء  اور ائمہ کرام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ حاجیوں  کو اس فریضے کی درست ادائیگی کااحساس دلائیں اور ان کی مناسب اصلاح وتربیت  کا اہتمام کریں ۔علماء  اور ائمہ کرام حاجیوں کے لیےتربیتی نشستوں کااہتمام کرتے ہیں، مگرمشاہدے میں آتا ہے کہ ان مجالس کا دورانیہ مختصراوران کا انعقاد کم جگہوں پر ہوتا ہے۔حکومت کی ذمہ داری اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم  ہے۔وہ جس طرح حاجیوں کی آمدورفت،قیام وطعا م اورعلاج ومعالجہ  وغیرہ کے  انتظامات کرتی ہے،اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کی روحانی تربیت  اور مناسک کی درست ادائیگی  کا  بھی انتظام کرے۔اس سلسلے میں تجویز یہ ہےکہ اگر حاجیوں کے  چھوٹے چھوٹے  گروپ بنائے جائیں اور ان میں ایک عالم دین کا  تقرر لازمی قراردیا جائے تو امید ہے کہ اس سے درج ذیل فوائد حاصل ہوں گے:
1- اگر حاجی کو ہر قسم کی ظاہری سہولت میسر ہو، مگر اس کا حج سنت کے مطابق ادا  نہ ہوتو  وہ خسران مبین کا مصداق ہے۔اس گھاٹے سے اسے بچانا  حکومتِ وقت کا مذہبی کے علاوہ آئینی فریضہ بھی  ہے،  جیسا کہ آئین  آرٹیکل 31۔(1)  میں  صراحت ہے ۔
2- حج  کےلیے روانگی سے قبل حکومتی اور پرائیوٹ سطح پر حاجیوں کے لیے تربیتی پروگرام تشکیل دیے جاتے ہیں، اگرچہ یہ سلسلہ مفید  ہے، مگر کافی نہیں؛ کیوں کہ حج جیسی عبادت کے لیے موقع پر موجود راہ نما کی ضرورت ہوتی ہے۔یہی وجہ معلوم  ہوتی ہے کہ  آں حضرت ﷺ نے پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیر حج بنا کے بھیجا اور اگلے سال بنفسِ نفیس  خودتشریف لے  گئے جس میں واضح سبق ہے کہ حج کے ارکان محض  پڑھائے یا سمجھائے نہ جائیں،  بلکہ امت کو کرکے دکھائے جائیں۔ آں حضرت ﷺ کے اس فرمان  سے  بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ''خذو عني مناسککم"، امر واقعہ بھی  یہ ہے کہ جس طرح حج کے برکات وثمرات   جاننے کے لیے وہاں حاضری  شرط قرار دی گئی ہے  ''لیشهدوا منافع لهم'' ،اسی طرح حج کی ادائیگی کا طریقہ کاربھی  یہاں پاکستان میں لاکھ اسباق کے باوجود بہتر طریقے سے سمجھ میں نہیں آسکتا ،یہ سبق اسی عملی میدان میں ذہن نشین ہوسکتا ہے  اور اس میدان میں ہمہ وقت حاضر عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔
3- حج کا دورانیہ عام حجاج کے لیے چالیس یوم پر مشتمل ہوتا ہے۔اس مدت کو نفوس کے تزکیہ اور قلوب کی اصلاح میں خاص دخل ہے۔اس لیے چالیس یوم ایک مزکی ومربی کی صحبت میں گزارنے سے اغلب یہی ہے کہ حاجی کی زندگی میں واضح تبدیلی آئے گی ،اس کی زندگی کا ورق پلٹے گااور وہ معاشرے کا ایک صالح رکن ثابت ہوگا۔
4- سرور کونین ﷺ  کا حج کے موقع پر اسوۂ مبارکہ یہ ہے کہ آپ خیمہ خیمہ تشریف لے جاتےاور وفود کوتوحید ورسالت   کی دعوت دیا کرتے تھے۔پیغمبر دوجہاں ﷺکی یہ سنت آج ریاستی طور پر اپنا احیاء چاہتی ہے۔
5- یہ اقدام اندرون وبیرون ملک پاکستان کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے اور اس کی نیک نامی کا باعث ہوگا،اگر چہ یہ مقصود بالذات نہیں مگر "تلك عاجل بشری المومن" میں داخل ہے۔
6- بعض خلیجی ممالک میں حجاج کرام کے ساتھ مفتی اور واعظ کا ہونا ضروری ہے۔
درج  بالامقاصد کے حصول کے لیے ضروری  ہوگا کہ "معلم "  (بالفاظ دیگر گروپ کا دینی رہنما) ان  صفات کا حامل ہو:
1- متقی وپرہیزگار ہو۔
2- پختہ  علمی صلاحیت کا حامل ہو اور  بطور خاص حج کے مسائل پر عبور رکھتا ہو ۔
3- زبان وبیان پر قدرت رکھتا ہو۔
4- خود متعدد مرتبہ حج کی سعادت حاصل کرچکا ہو۔
5- اصلاح وتربیت کا جذبہ وتڑپ رکھتا ہو ۔
اس سلسلے میں اگر اسلامی نظریاتی  کونسل ایک سفارش مرتب کرکے وزارت مذہبی امور کو روانہ کرے  تو بہتر ہوگا۔