نکاح میں سرپرستوں کی رائے کی اہمیت
سوال:۔ایک لڑکی ہے جواپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے تواسے مشورے اوراجازت کاپابند کیوں کیا جاتا ہے؟میرے خیا ل میں تو اسے سراہناچاہیے کہ وہ اتنی ہمت رکھتی ہے؟
جواب:۔اگربیٹی باپ سے پوچھے بغیر معمولی زمینی سفر کرتی ہے تو اسےبراسمجھاجاتا ہے لیکن اگر وہ پوری زندگی کا سفر والدین کو اعتماد میں لیے بغیر کرے تو آپ کی نظر میں وہ قابل تحسین ہے ؟اگر وہ اپنےتعلیمی سفر میں کسی فن یا درسگاہ کا انتخاب مشورہ کیے بغیر کرتی ہے تووہ قابل ملامت ٹھہرتی ہے لیکن اگر وہ ایک دائمی رشتے میں مشورہ کیے بغیر داخل ہوتی ہے تو وہ قابل ملامت نہیں ہے؟جہاں دیدہ ،فہمیدہ،عمر رسیدہ حکمران مشاورت کا پابند رہتا ہے مگر ایک لڑکی جوناقص العقل ہے وہ مشاورت کی پابند نہیں ہے؟جوکم عمرہونے کی بناء پر ناتجربہ کار ہے،لوگوں کی عادات اور خصلتوں سے ناواقف ہے، مردوں کی مکاری اور وعیاری کو نہیں جانتی اور گھر سے باہر کی دنیا کی منافقت،خود غرضی اوربے رحمی سے اسے کبھی واسطہ نہیں پڑا ہے وہ خاندان سے مشاورت کی پابند نہیں ہے؟ قرآن حکیم نے تو فرعون اور ملکہ سبا وغیرہ ایسے حکمرانوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ بھی ارباب حل وعقد کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرتے تھے مگر ایک بھولی بھالی لڑکی تنہا اپنی قسمت کا فیصلہ کرے اورمعاشرے کو بھی اس فیصلے کی تحسین کرنی چاہیے ،اگرچہ اس کا فیصلہ مسلمہ اقدار کے خلاف ہو اوراسے اس تنہاپرواز کی بھاری قیمت چکانا پڑے۔ خود رسول مقبول ﷺ جو عقل ِکل اورحکیم انسانیت ہیں وہ تو اپنے صحابہ سے مشورہ کرنے کے پابند ہوں مگر ایک لڑکی رسمی حد تک ہی سہی اپنے ولی کی رائے لینے کی پابند نہ ہو ؟ایسے لوگوں کی رائے جو دنیا میں اس کے سب بڑے خیرخواہ ہیں اور جو بےلوث اوربے غرض ہونے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ سرپرست کو حکم ہے کہ وہ لڑکی کی رضامندی کواہمیت دے اوراسے کسی خاص جگہ رشتے پر مجبور نہ کرے کیونکہ زندگی کا سفر بہرحال اسے طے کرنا ہے ۔دوسری طرف لڑکی کو بھی چاہیے کہ وہ سرپرستوں کی رائے کو اہمیت دے کیونکہ وہ رشتوں کی لازوال زنجیر میں بندھی ہوئی ہے ۔شادی کے بعد بھی اسے خاندان کی ضرورت ہے۔ضروری نہیں ہے کہ اس کی ازدواجی زندگی کامیاب ہو،اگر رشتہ خدانخواستہ ناکام ہوتا ہے توخاندان کی صورت میں اس کے پاس پناہ گاہ موجود ہوتی ہے۔اس کے برعکس جو لڑکیا ں اپنافیصلہ خود کرتی ہیں وہ خاندان کی حمایت سے محروم ہونے کی وجہ سے پوری طرح شوہر کی رحم وکرم پر ہوتی ہیں اور اگر شوہر بھی اچھا نہ نکلے تو نتیجہ یاتو طلاق کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر اسے دائمی ازدواجی عذاب کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔