سرکاری ملازمین کامسائلِ عامہ پر اظہارخیال کرنا
سوال:
کیا سرکاری ملازم دورانِ ملازمت حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرسکتا ہے؟اگروہ جائز تنقید بھی کرتا ہے تو اسے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں ،آپ اس کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
جواب:
سرکاری ملازم ایک انسان بھی ہوتا ہے اور اگر وہ مسلمان ملک کاباشندہ ہو تو عام طور پر مسلمان بھی ہوتا ہے۔ انسان اورمسلمان ہونے کے علاوہ وہ اس ملک کا شہری اورمعاشرے کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ملک کے اجتماعی مسائل اس کے مسائل ہوتے ہیں اورملک کی قانونی ، سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے وہ اور اس کا خاندان بھی متاثر ہوتا ہے ۔وہ آنکھ اور کان رکھتا ہے جس سے دیکھتا اورسنتا ہے، جذبات اوراحساسات رکھتا ہے جن کااظہار چاہتا ہے ، لیکن اگراس کے اظہارِ خیال کوغیر قانونی فعل قراردیا جاتا ہے اوراس بنا پر اس کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاتی ہے تو گویا وہ سوچنے سمجھنے والا جیتاجاگتا انسان نہیں ہے، بلکہ بے جان اوربے حس مخلوق ہے اورسرکاری ملازمت کی وجہ سے وہ ملک کی شہریت اورمعاشرے کی رکنیت کھوچکا ہے ۔
ایک شہری ملازم ہونے کی حیثیت سے کسی حکومت کی ناجائز پالیسی پر تنقید نہیں کرتا ہے یا اس کی تنقید کاخاطرخواہ نتیجہ نہیں برآمد ہوتا تو وہ اپنی خاموشی میں معذورسمجھاجاسکتا ہے، مگر ایک شخص مسلمان ہونے کی حیثیت سے کسی غیر شرعی فعل پر نہ تو خاموش تماشائی بن سکتا ہے اورنہ ہی ٹھنڈے پیٹوں اسے برداشت کرسکتا ہے،وہ حق کوحق اورناحق کو غلط کہنے پر مجبور ہے،اسے "تواصی بالحق" اور "امربالمعروف" اور "نہی عن المنکر" کا حکم ہے۔ یہ حکم ایسا ہے کہ اختیاری اور صواب دیدی نہیں ہے کہ کرلیا تو اچھا ہے اورچھوڑدیا تو کوئی حر ج نہیں ، بلکہ وہ اس کا پابند ہے اور استطاعت کے باوجود ترک کرنے پر گناہ گار ہے۔اگرکوئی قانون ایسا ہے کہ جس سے ملازم کسی انفرادی یا اجتماعی مسئلے پر اظہارخیال نہیں کرسکتا ہے جب کہ وہ مسئلہ ایسا ہوکہ کتاب وسنت کی رو سے ملازم کے لیے اس پر اظہار خیال ضروری ہوتو ملازم کو ضروراس پر لب کشائی کرنی چاہیے، بلکہ اگر نکتہ چینی کی بجائے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہوتوحسبِ استطاعت اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے ۔
شرعی طورپر جو تنقید ضروری ہو اس کے سلسلے میں ملازم پر معاہدۂ ملازمت کی شرائط کی پاس داری ضروری نہیں ہے ؛ کیوں کہ نہ تو وہ اس طرح کا کوئی قول وقرار کرسکتا ہے کہ وہ حق سے اپنے لب بندرکھے گا اورمنکر پر کوئی نکیر نہیں کرے گا اورنہ ہی اس پر اس طرح کی صورتِ حال میں حکام کی اطاعت واجب ہے۔
قرآنِ حکیم حکام کی اطاعت کو واجب قراردیتا ہے ، مگر اس سے پہلے خود حکام کو شریعت کی اطاعت کاحکم دیتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکام کی اطاعت اس وقت واجب ہے جب وہ حق بات کی اطاعت کا حکم کریں۔قرآنِ پاک اللہ اوررسول کی اطاعت کے بعد حکمرانوں کی اطاعت کا ذکرکرتا ہے جس سے یہ اصول قائم کرنا مقصود ہے کہ حکام کی اطاعت اس وقت واجب ہے جب اللہ اوررسول کی اطاعت کاحق اداہوچکا ہو۔قرآنِ حکیم کی رو سےحکمرانوں سے رعایا کا اختلاف جائز ہے، البتہ آخری اپیل کتاب وسنت کی ہی عدالت میں ہونی چاہیے۔قرآنِ کریم نے اس اصول کوبھی طے کردیا کہ اگر کسی قانون کے متعلق اختلاف ہوجائے کہ وہ درست ہے یا نہیں تو اسے قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھاجائے گا۔مختصر یہ کہ سرکاری ملازم کو بھی اصولی طورپرکسی قانونی، دستوری، معاشی، معاشرتی، سیاسی یا سماجی مسئلے پر اظہارِ خیال کا حق ہے اور اس حق کے استعمال پر اس کے خلاف تادیبی کاروائی درست نہیں ۔