پڑوسیوں کا ضرورت کی اشیاء ایک دوسرے سے لینا دینا
سوال:۔گاؤں دیہات میں ضرورت کے وقت لوگ ایک دوسرے چیزیں مانگ لیتے ہیں اورپھر واپس کردیتے ہیں مثلا کسی کو گھی کی ضرورت ہوتو وہ پڑوس سےمنگوالیتا ہے اور پھر جب اس پڑوسی کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس سے مانگ لیتا ہے۔مجھے اس بارے میں تردد یہ ہے کہ یہ سود میں داخل نہ ہوکیونکہ ہم جنس چیزوں کا تبادلہ نقد ہونا ضروری ہوتا ہے اور ادہار جائز نہیں ہوتا۔آپ اس سلسلے میں کیافرماتے ہیں کیا میرا شبہ درست ہے؟
جواب:۔یہ اچھا رواج ہے اورصدیوں سے دیہی علاقوں میں رائج ہے۔اسے سود کہنا درست نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ معمولی مقدار میں ایک دوسرے سےاشیاء مانگتے ہیں اورمددوتعاون کے جذبے سے ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔لین دین مقصد نہیں ہوتا اور اگر اسے باقاعدہ لین دین سمجھیں تو یہ قرض کے طور پر لین دین ہوتا ہے اورقرض کے طورپر گھی ،دالوں ،آٹے،چینی وغیرہ کا تبادلہ جائز ہے۔اگر اسے باہم اشیاء کاتبادلہ سمجھیں تو بھی مٹھی دو مٹھی یہاں تک نصٖف صاع جو تقریبا پونے دو کلو کے برابر ہوتا ہے،اس میں سود جاری نہیں ہوتا ہے۔الفتاوى العالمكيرية: كتاب البيوع ، الباب التاسع، الفصل السادس في تفسير الربا وأحكامه، (3/117)، ط: رشیدیه، كوئٹه