تعمیرات میں استعمال ہونے والے مال کاحکم



سوال :۔تعمیرات کے متعلق میں نے سنا ہے کہ بدترین مال وہ ہے جو تعمیرات میں استعمال میں ہو۔اس بات میں کتنی صداقت ہے؟
 
جواب:۔ ضرورت کے بقدر تعمیرات میں گناہ نہیں ہے ۔ حدیث میں جو کہاگیا ہے  کہ  تعمیر میں کوئی خیر نہیں ہے ،اس سے مراد ضرورت سے زیادہ تعمیرات  ہیں۔ 
معارف القرآن میں حضرت شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ، وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اور تعمیرات کرنا شرعاً برا ہے اور یہی معنی ہیں اس حدیث کے جو امام ترمذی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ النفقة کلھا فی سبیل اللہ الا البناء فلا خیر فیہ، یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری اور بھلائی نہیں اور اس معنی کی تصدیق حضرت انس کی دوسری  روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ان کل بناء وبال علی صاحبہ الا مالا، الا مالا یعنی الا مالا بدمنہ (ابو داؤد) یعنی ہر تعمیر صاحب تعمیر کے لئے مصیبت ہے مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے روح المعانی میں فرمایا کہ بغیر غرض صحیح کے بلند عمارت بنانا شریعت محمدیہ میں بھی مذموم اور برا ہے۔