کوروناوائرس سے جاں بحق افراد کے شرعی حقوق
سوال:۔اس وبائی مرض کورونا سے جو لوگ انتقال کرجائیں ،ان کے کفن ودفن وغیرہ کے متعلق حقوق کیا ہیں؟میری درخواست ہے کہ آپ روزنامہ جنگ کی وساطت سے اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالیں کیونکہ اس وقت اس کی ضرورت ہے اورمعاشرہ اس سلسلے میں کچھ افراط وتفریط کا شکار ہے۔ساتھ میں یہ بھی واضح فرمائیں کہ اگر کسی دیہی علاقے میں یا بیرون ملک کوئی شخص اس مرض سے جاں بحق ہوجائے تو اس کے متعلق کیاحکم ہوگا؟خیراندیش ،شبیرعثمانی
جواب:۔ پہلے چندگزارشات پیش کرتا ہوں اورپھر اس مرض سے جاں بحق افراد کے کفن ودفن وغیرہ کے متعلق احکام درج کرتا ہوں۔
۱۔شریعت کاتعلق مسلمان کی ذات سے ہے۔ذات کے ساتھ تعلق کی وجہ سے مسلمان جہاں بھی ہو وہ شریعت کا مکلف رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرمسلمان اپنی ملک کی حدود سے نکل کردوسرے ملک کی حدود میں داخل ہوجائے تو وہ پھر بھی شریعت کامکلف رہتا ہے یہاں تک کہ اگر وہ چاند یا کسی دوسرے سیارے پر چلاجائے تو شریعت پھر بھی اس پر لاگورہتی ہے کیونکہ ذات وہاں موجود ہے تو شریعت بھی اس پر نافذ رہے گی۔دنیوی قوانین کا تعلق چونکہ اپنی ملکی حدود سے ہوتا ہے اس لیے ایک ریاست کا باشندہ جب دوسری ریاست میں داخل ہوتا ہے تووہ اس دوسری ریاست کے قوانین کا پابند ہوتا ہے۔
۲۔ذات کے ساتھ شریعت کےتعلق کا مطلب یہ ہے کہ شریعت اس پرذمہ داریاں عائد کرتی ہیں لیکن ذمہ داریوں کے ساتھ شریعت حقوق بھی بخشتی ہے۔تمام ہی شائستہ قوانین فرائض اور حقوق کا مجموعہ ہوتے ہیں مگرشریعت کاامتیاز اس موقع پر ظاہر ہوتا ہے جب ذات پر ذمہ داری کوئی نہیں ہوتی مگر حقوق اسے حاصل ہوتے ہیں۔ ایک بچہ جب شکم مادرمیں ہوتا ہے تو وہ ذمہ داریوں کی بوجھ سے آزاد ہوتا ہے مگراسے شرعی حقوق حاصل ہوتےہیں ۔ایسے حقوق جو صرف اخلاقی نوعیت کے نہیں ہوتے بلکہ قانونی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور عدالت کے ذریعے قابل حصول ہوتے ہیں مثلا بطن مادر میں موجود بچے کے لیے ہبہ اوروصیت کی جاسکتی ہے اور اگر اس کے والد کا انتقال ہوجاتا ہے تو وہ بھی باقاعدہ وارث قرار پاتا ہے۔
۳۔پیدائش کے بعد اسلام جو حقوق ایک انسان کوانسان ہونے کی حیثیت سے عنایت کرتا ہے اور ان میں مذہب وملت کی وجہ سے کوئی فرق نہیں کرتاہے ،ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہرانسان قابل احترام ہے،اگرچہ وہ غیرمسلم ہو اوردارالکفر کا باشندہ ہو۔فقہاء لکھتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست میں ایک مسلمان دین اسلام ، شرف انسانیت اوراسلامی ریاست کی شہریت کی وجہ سے معزز ومحترم ہے اورغیر مسلم بھی آخری دووجوہات (شرف انسانیت اوراسلامی ریاست کی شہریت )کی وجہ سے معزز اورقابل احترام ہے۔
۴۔جس طرح زندگی میں انسان محترم ومکرم ہے اسی طرح موت کے بعد بھی اس کااحترام باقی رہتا ہے چنانچہ احادیث کی روسے مردوں کو برابھلا کہنے ،لاشوں کو بگاڑنے،آگ میں جلانے،قبرپر بیٹھنے ،قبر کو اکھاڑنے اورمیت کی ہڈی توڑنے کی ممانعت آئی ہے۔ اگرمرنے والا مسلمان ہے تو اس کے حقوق اورزیادہ ہے اوراگر وہ رشتہ دار بھی ہے تو اس کے حقوق اس سے بھی زیادہ ہیں مثلا والدین میں کسی کا انتقال ہوا ہے تو اس کا حق ہے کہ کوئی جائز وصیت کی ہو تو نافذ کی جائے،اس کے لیے دعا اوراستٖغفار کیاجائے،حسب توفیق صدقہ وخیرات کیاجائے قبر کی زیارت کی جائے اوراس کے رشتہ داروں اوردوستوں کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے۔
۵۔جیسا کہ ذکر ہوا کہ موت کے بعد بھی انسان قابل احترام رہتا ہے ۔اس احترام کے پیش نظر اس کے وہ حقوق باقی رہتے ہیں جن کاتعلق اس کی آخری ضرورتوں سے ہےجیسے غسل،کفن،جنازہ اوردفن وغیرہ۔اوریہ حقوق جس طرح شریعت کے عطاکردہ ہیں ،اسی طرح ہمارا آئین بھی ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے مثلا آئین کے تحت شرف انسانی قابل حرمت ہے۔ہرانسان کواپنے مذہب کی پیروی اوراس پر عمل کرنے کی اجازت ہے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایساماحول فراہم کرے کہ مسلمان قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگی بسرکرسکیں۔ملکی دستور کے علاوہ اقوام متحدہ کاانسانی حقوق کا عالمی منشوربھی ان حقوق کی تائید کرتا ہے۔
۶۔غسل ،کفن ،جنازہ اوردفن ایک طرف تو مسلمان میت کے حقوق ہیں مگردوسری طرف یہ زندہ مسلمانوں کے فرائض اور ذمہ داریا ں بھی ہیں کیونکہ جب قرآن وسنت نے احترام انسانیت کی تلقین کی ہے توانسانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ انسانیت کا احترام کریں چنانچہ چاروں حقوق فرض کفایہ ہیں اوراگر کوئی ان کو انجام نہ دے تو جن جن لوگوں کو اس کاعلم ہو وہ سب گناہ گار ہوں گے۔
ان اصولی باتوں کے بعد اب احکام درج کرتا ہوں۔
۱۔جو شخص متعدی مرض میں مبتلا ہو اس کے ساتھ میل جول مباح (جائز )ہے۔زیادہ سے زیادہ سے اس سے عدم اختلاط مستحب ہے لیکن اگراسے خدمت یا تیمارداری کی ضرورت ہو تواس کی خدمت اور تیمارداری واجب ہے۔شرعی قاعدہ یہ ہے کہ مباح اور واجب جب کسی مسئلے میں ایک دوسرے کے مقابلے میں آجاتے ہیں تو ترجیح واجب کو ہوتی ہے اس لیے کورونا کے مریض کی تیمارداری واجب ہے اور اس کی تیمارداری نہ کرنا واجب کا ترک اور گناہ ہے۔اگر کوئی اس وجہ سے ایسے مریض سے دوررہتا ہے کہ کورونا کا مرض اسے بھی لگ کر رہے گا تو یہ جاہلیت کا عقیدہ ہے جسے اسلام نے مٹایا ہے مگربدقسمتی سےآج ہر طرف سے اسی نظریے کی ترویج واشاعت کی جارہی ہے حالانکہ عقیدہ یہ ہوناچاہیے کہ سبب کے درجے میں اذن الہی سے مرض لگنے کا امکان ضرور ہوتاہے مگریہ ضروری نہیں کہ مرض بہرحال لگ کررہے گا۔
۲۔اگرکوروناوائرس سے کوئی شخص ایسے مقام پر جاں بحق ہوجائے جہاں اس کے آخری حقوق ادا کرنے کے لیے مناسب حفاظتی آلات دستیاب نہ ہوں تو پھر بھی اس کےدرج بالاچار حقوق (غسل ،کفن ودفن اورجنازہ )واجب ہی رہیں گے اوران کاترک گناہ کاباعث ہوگا۔اگرمتوفی شخص غیر مسلم ملک کاشہری ہوتو بقدرامکان اس کے حقوق بھی واجب ہی رہیں گے۔
۳۔اگرکوئی شخص ہسپتال میں اس مرض سے انتقال کرجائے تو ضروری قانونی اورطبی کاروائی کے بعد میت اس کے لواحقین کی سپرد کردینی چاہیے۔
۴۔ضروری نہیں ہے کہ کوئی متعدی بیماری بہرحال دوسرے انسان کو لگ کررہے اورنہ ہی شریعت ظاہری اسباب سے لاپرواہی کو پسند کرتی ہے ۔اس لیے میت کہ درج بالاحقوق بجالاتے ہوئے نہ تو ممکنہ احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کیاجائے اورنہ ہی میت سے اس قدراحتیاط اوردوری برتی جائے کہ اس کے حقوق سنت طریقے کے مطابق ادا نہ ہوں۔
۵۔اگرمیت کسی غیر مسلم کی ہے تو اس کی آخری رسومات اس کی شخصی فقہ کے مطابق انجام دی جائیں۔
۶۔کروناسے جاں بحق شخص کو بھی پانی سے غسل دینامسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔میت پراسپرے کردینا یا تیمم کرادینا کافی نہیں ہے البتہ پانی میں جراثیم کش ادویات ملانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ماہرین ایسی میت کو غسل دیتے وقت احتیاطی تدابیر اختیارکرنے اور مخصوص لباس پہننے کی ہدایت کرتے ہیں ،ان ہدایات پر حتی الامکان عمل کا اہتمام کرنا چاہیے۔غسل کا ترجیحی حق میت کے قریبی عزیز کوہے لیکن اگر میت لواحقین کو سپرد نہیں کی جاتی تو پھر اسے غسل دینا متعلقہ حکام کا فریضہ ہے۔اگر بالفرض وہ اس فریضے کو پورا نہیں کریں تو گناہ گار ہوں گے۔
۷۔غسل دینے کے بعدمیت کو کفن دینا فرض کفایہ ہے۔مسنون کفن دینےکے بعد میت کو کسی پلاسٹک وغیرہ میں لپیٹنا ضروری ہوتو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
۸۔مسلمان میت پر جنازہ پڑھنا بھی فرض کفایہ ہے ۔اگرمیت کو جنازہ پڑھے بغیر دفن کردیا جائے تو جن جن مسلمانوں کو علم ہو وہ سب گناہ گار ہوں گے۔جنازہ پڑھتے وقت میت کا کسی حائل کے بغیر امام کے سامنے ہوناضروری ہے اورامام اورجنازہ کے درمیان دوصف سے زیادہ کا فاصلہ نہ ہو۔میت سے خوف زدہ ہونے کی وجہ سے جنازے کا امام سے بہت دوررکھنا درست نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی دوتین ہفتے قبل جاری شدہ ہدایات کے مطابق فوت شدہ شخص سے مرض کے متعدی ہونے کا ثبوت نہیں ملتا ہے۔
۹۔میت کو دفن کرنا بھی فرض کفایہ ہے۔وبائی امراض سے فوت شدہ اشخاص کو بجائے دفنانے کے جلانا سخت ناجائز اورحرام ہے۔تدفین عام قبرستان میں بھی جائز ہے اورورثاء کے لیے سہولت کا باعث ہے اور کسی انتظامی مصلحت سے مخصوص قبرستان میں بھی تدفین جائز ہے