فدیہ کے مسائل



سوال :۔نماز اور روزوں کے فدیے کاکیا حکم ہے۔کیا اس کا اداکرنا ضروری ہوتا ہے اور کتنااداکیا جاتا ہے اور کن کو دیا جاتا ہے؟
 
جواب :۔اگر مرحوم نے اپنی قضانمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی تو ان کے مال ایک تہائی  میں سے فدیہ کی رقم نکالی جائےگی۔اگر تمام قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تواداکردیاجائے گا۔ اگر تہائی مال کافی نہ ہو تہائی مال سے زیادہ کی ادائیگی ورثاء کے ذمے لازم نہ ہوگی تاہم اگر وہ اداکردیتے ہیں وہ عاقل اوربالغ بھی ہیں تو ان کی طرف سے مرحوم پراحسان ہوگا۔  اگر مرحوم نے فدیہ اداکرنے کی وصیت نہیں کی ہے تو ورثاء پران کی نماز اور روزہ کا  فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء  اپنی خوشی سے ادا کردیں تو امید ہے کہ مرحوم آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گے۔
ایک روزے  یا ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے۔ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔اگر مرحوم کے ذمہ نمازوں اور روزوں کی تعداد معلوم ہے تو ورثاء اسی کے بقدر فدیہ  دیں اور اگر تعدادمعلوم نہیں ہے تواندازہ لگاکر اداکرسکتے ہیں۔فدیہ اس شخص کودیاجاسکتا ہے جس کو زکوۃ دیناجائز ہے یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ۔