بیوہ کے لیے دوسرانکاح افضل ہے یا بچوں کی پرورش
سوال :۔ایک عورت کے دو بچے ہیں مگر اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے۔عورت ابھی جوان ہے اور شادی کی خواہش بھی رکھتی ہے مگر بچوں کا سوچتی ہے تو شادی کا خیال ترک کردیتی ہے۔آپ یہ فرمائیں کہ اس کے لیے دوسرا نکاح کرنا اچھا ہے یا بچوں کی پرورش میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا اچھا ہے۔میں نے سنا ہے کہ جو عورت بچوں کی پرورش کی وجہ سے نکاح نہ کرے اس کے لیے بڑااجروثواب ہے ۔کیا آپ اصل حدیث بتاسکتے ہیں؟
جواب:۔ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ عورت کہ جس کے رخسار اپنی اولاد کی پرورش و دیکھ بھال کی محنت اور مشقت اور ترک زینت و آرائش کی وجہ سے سیاہ پڑ گئے ہیں قیامت کے دن اس طرح ہوں گے اس حدیث کے روای یزید بن ذریع نے یہ الفاظ بیان کرنے کے بعد انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں اسی طرح قیامت کے دن آپ اور وہ بیوہ عورت قریب قریب ہوں گے اور سیاہ رخساروں والی عورت کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جو اپنے شوہر کے مر جانے یا اس کے طلاق دیدینے کی وجہ سے بیوہ ہو گئی ہو اور وہ حسین و جمیل اور صاحب جاہ عزت ہونے کی باوجود محض اپنے یتیم بچوں کی پرورش اور ان کی بھلائی کی خاطر دوسرا نکاح کرنے سے باز رہے یہاں تک کہ وہ بچے جدا ہو جائیں یعنی بڑے اور بالغ ہو جانے کی وجہ سے اپنی ماں کے محتاج نہ رہیں یا موت ان کے درمیان جدائی ڈال دے۔ (سنن ابوداؤد حدیث نمبر۵۱۴۹) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوہ اگر بچوں کی تعلیم وتربیت اور ان کے مستقبل کی خاطر دوسرا نکاح نہیں کرتی ہے تو اس کے لیے بڑی فضیلت ہے مگریہ سب کچھ اس وقت ہے جب وہ صبرواستقامت اور عفت وپاکدامنی کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہو۔اگر اسے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے نکاح کرلینا چاہیے اور جس قدر فتنے کا امکان زیادہ ہواس قدر دوسرے نکاح کی تاکید بھی زیادہ ہوگی۔