موٹر سائیکل کا ایک ناجائز کاروبار



سوال: ۔مفتی صاحب آپ سے کچھ سوالات ایک تجارت کے جائز یا ناجائز  ہونے کے بارے میں پوچھنے ہیں۔
1 ۔ ایک تجارتی کمپنی ہےجو چین سے موٹر سائیکل کے پارٹس لاکرپاکستان میں موٹرسائیکل کی فٹنگ کرکےموٹرسائیکل بناتی ہے۔
2۔آج کل اس کمپنی میں ایک موٹرسائیکل کی ٹوٹل قیمت  36000 روپےہے۔
3 ۔کمپنی شروع میں اپنے گاہکوں سے ایک موٹرسائیکل کی ٹوٹل قیمت  21600 روپے وصول کرتی ہے جوکہ ٹوٹل قیمت کا 60 فیصد ہوتاہے۔
4 ۔ کمپنی 35 یا 40 دنوں میں موٹرسائیکل تیار کرلیتی ہے۔
5۔ جب کمپنی موٹرسائیکل تیار کرلیتی ہے تو گاہک بقایا 40 فیصد رقم جوکہ 14400 ہے کمپنی کو ادا کرکے
اپنا موٹرسائیکل وصول کر سکتا ہے۔
6 ۔ اگر گاہک موٹرسائیکل نہیں لیناچاہتا بلکہ کمپنی کووکیل بنا کر موٹرسائیکل فروخت کرکے نفع وصول کرےتو اس صورت میں کمپنی اپنی 40 فیصد رقم خود وصول کرکے موٹرسائیکل فروخت کرتی ہےاورگاہک کوموجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق نفع دیتی ہے ۔ نفع کی رقم مقررہ نہیں ہے کبھی کم کبھی زیادہ ملتی ہے۔
7 ۔ ایگرمنٹ میں نفع کا تعین نہیں ہے ،نہ ہی کوئی رقم مقرر ہوتی ہے۔
8 ۔ موٹرسائیکلوں کی تعداد مقرر نہیں ہے جتنے موٹرسائیکل کمپنی سے گاہک چاہے بک کرسکتا ہے۔
9 ۔ جتنی رقم کی گاہک نے موٹرسائیکلوں کی بکنگ کمپنی سے کی ہے،گاہگ جب چاہے اپنی رقم نکال سکتا
ہے۔ اس رقم سے نہ تو کٹوتی ہوتی ہے اور نہ  کوئی اور شرط ہے ہاں البتہ جب اپنی رقم کمپنی سے واپس لینا ہوتو ایک مہینہ پہلے کمپنی کو اطلاع دینی ہے کمپنی بغیر کسی شرط اور رکاوٹ کے گاہک کی اصل رقم واپس کر لیتی ہے۔
10 ۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہےکہ  شروع شروع میں کمپنی گاہک کو 9000 روپے فی موٹرسایکل نفع دیتی تھی لیکن بعد میں یہ گھٹ کر 5000 روپے فی موٹرسائیکل گاہک کو ملتے تھے۔آج کل مارکیٹ ریٹ کے مطابق فی موٹرسایکل 3500 روپے ملتا ہے یعنی کبھی کم کبھی زیادہ۔ گزارش ہےمندرجہ بالا تجارت شرعا جائز یا ناجائز ؟ براہ مہربانی قراٰن وسنت کی روشنی میں جلدازجلد رہنمایٗ فرمایں۔)حافظ عبدالباسط کوئٹہ(
 
جواب :۔ اگر مذکورہ کمپنی  سے  معاہدے میں شروع ہی سے یہ شرط داخل ہوکہ 35، 40 دن  بعدخریدار کواختیار ہوگاکہ چاہے توموٹرسائیکل لے لے یااضا فی رقم وصول کرلے تو یہ معاہدہ ابتدا ہی سے فاسد ہے اورایسے معاہدے کے تحت موٹرسائیکل لینابھی جائز نہیں ہے، یہ گویا قرض پر نفع کی ایک  صورت ہے  کہ کمپنی کو جو ابتداء میں 21600   روپے خریدار نے  دیےہیں اس پر  نفع  وصول کیا جارہا ہے اور قرض پر نفع حاصل کرنا سود ہے۔  اگرمعاہدے میں ایسی شرط نہ ہو تو اس صورت میں  اگر خریدار وقت مقررہ پر باقی رقم نقد دے کر کمپنی  سےموٹرسائیکل  لے کر  اس پر قبضہ حاصل نہ کرے اور   نقد رقم  دیے بغیر اورموٹر سائیکل پر قبضہ  کیےبغیر اسے کمپنی کو  واپس فروخت کردے تو یہ  بھی جائز نہیں ہے، اسی طرح  اگر  مذکورہ کمپنی سے معاہدہ صرف کاروبار اور نفع کے حصول کے لیے کیا جائے اور حقیقتا موٹر سائیکل خریدنا مقصود نہ ہو تب بھی یہ معاملہ جائز نہیں ہے۔نیز اس معاملہ کو بیع سلم قرار دینا بھی درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ  بیع سلم میں اس چیز کی  مکمل قیمت عقد بیع کے وقت مجلس عقد میں ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہاں  موٹر سائیکل کی مکمل قیمت ادا نہیں  کی جارہی ،اس لیے بیع سلم قرار دے کر بھی اس کو جائز نہیں کہا جاسکتا۔بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی کاروبار کے پردے میں لوگوں سے پیسے جمع کر رہی ہے ،اس لیے اس کاروبار سے احتراز لازم ہے۔  (الجامع الصغیر للسیوطی، ص:395، برقم :9728، ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت) (تبیین الحقائق 4/ 80،  کتاب البیوع، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)