عمرہ زائرین پر ٹیکس عائد کرنا
سوال:۔محترم ڈاکٹرصاحب !آپ کے علم میں ہوگا کہ جو پاکستانی دوسال کے اندر دوبارہ عمرے کے لیے جائے گا،اسے دوہزار ریال ٹیکس یا جرمانے کی مدمیں اضافی اداکرنا ہوں گے۔حکومت سعودی نے یہ ٹیکس عائد کیا ہے اوروہی وصول کرتی ہے۔آپ سے یہ ردیافت کرنا ہے کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیاکسی حکومت کااس طرح ٹیکس عائد کرنا جائز ہے ؟عثمان غوری،کراچی
جواب :۔جب سے سعودی حکومت نے یہ قانون عائد کیا ہے،لوگ کثرت سے اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں پوچھتے ہیں اورہمارے ادارے سےاس کاشرعی جواب دے دیا جاتا ہے۔آپ کے سوال کے جواب میں بھی میں اپنے ادارے بنوری ٹاؤن سے جاری کردہ ایک فتوی کا متعلقہ حصہ درج کرتا ہوں،جس میں اس قانون کا شرعی پہلو سے جائزہ لیا گیا ہے۔فتوی میں کچھ عربی عبارتیں بھی ہیں جو اہل علم کے اطمینان وتسلی کی خاطر ہیں۔فتوی کا حاصل یہ ہے کہ جولوگ عمرہ کے لیے جاتے ہیں ان سے اضافی دوہزار ریا ل وصول کرنا ناجائز ہے۔ملاحظہ کیجیے:’’
حرمین شریفین تمام دنیا کے مسلمانوں کی عبادت کے لئے مشترکہ مقامات ہیں، حرم کے مستقل باسیوں کا حر م میں جتنا حق ہے، اتنا ہی حق دنیا کے کسی اور جانب سے آنے والے کا بھی ہے، چنانچہ قرآن کریم کی آیت:’’سَوَاۗءَۨالْعَاكِفُ فِيْهِوَالْبَادِ[الحج: 25] کے ذیل میں اس کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ اپنے اس حق کی وجہ سے اگر کوئی مسلمان جائز طور پر اس حق سے مستفید ہونا چاہے تو دنیا کے کسی حاکم یا قانون کو اسے روکنے کا حق نہیں ہے، ایسا اس وجہ سے ہےکہ کسی مسلمان کے لئے حرم شریف جانا ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے گھر یا محلے کی مسجدمیں جائے، جس طرح یہاں کسی کو رکاوٹ ڈالنے کا حق نہیں،اسی طرح حرم جانے والے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا بھی شرعاً جائز نہیں۔
جہاں تک دوبارہ عمرہ کرنے والوں پر دو ہزار ریال بطور ٹیکس عائد کرنے کا تعلق ہے تو شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔بذل المجہود میں ہے :
’’انما العشور علی الیہود والنصاری ولیس علی المومنین عشور۔ قال القاری : قال ابن الملک اراد بہ عشر مال التجارۃ لا عشر الصدقات فی غلات اراضیھم۔ قال الخطابی : ولایوخذ من المسلم شئ من ذلک دون عشر الصدقات۔‘‘(۴/۱۵۷)
الترغيب والترهيب للمنذري میں ہے:
’’عَن عقبَة بن عَامر رَضِي الله عَنهُ أَنه سمع رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقُول لَا يدْخل صَاحب مكس الْجنَّة قَالَ يزِيد بن هَارُون يَعْنِي العشار رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن خُزَيْمَة فِي صَحِيحه وَالْحَاكِم كلهم من رِوَايَة مُحَمَّد بن إِسْحَاق وَقَالَ الْحَاكِم صَحِيح على شَرط مُسلم كَذَا قَالَ وَمُسلم إِنَّمَا خرج لمُحَمد بن إِسْحَاق فِي المتابعات قَالَ الْبَغَوِيّ يُرِيدبِصَاحِب المكس الَّذِي يَأْخُذ من التُّجَّار إِذا مروا عَلَيْهِ مكسا باسم الْعشْر قَالَ الْحَافِظ أما الْآن فَإِنَّهُم يَأْخُذُونَ مكسا باسم الْعشْر ومكوسا أخر لَيْسَ لَهَا اسْم بل شَيْء يأخذونه حَرَامًا وسحتا ويأكلونه فِي بطونهم نَارا حجتهم فِيهِ داحضة عِنْد رَبهم وَعَلَيْهِم غضب وَلَهُم عَذَاب شَدِيد۔(1 / 319، دار الکتب العلمیۃ)
نيل الأوطار میں ہے:
قوله: (وليس على مسلم جزية) لأنها إنما ضربت على أهل الذمة ليكون بها حقن الدماء وحفظ الأموال، والمسلم بإسلامه قد صار محترم الدم والمال قوله: (عشور) هي جمع عشر وهو واحد من عشرة: أي ليس عليهم غير الزكاة من الضرائب والمکس و نحوھما۔(8 / 70، دار الحديث، مصر)
اسلامی قوانین میں ایسے ابواب کو یہاں تک ناجائز رکھا گیا ہے کہ یہود ونصاری جو بیت المقدس کی زیارت کو جاتے ہیں، اس کی وجہ سے ان سے اس طرح کی رقم لینا حرام قراردیاگیا ہے،چنانچہ فتاوی شامی میں ہے:
قال الخير الرملي: أقول: منه يعلم حرمة ما يفعله العمال اليوم من الأخذ على رأس الحربي والذمي خارجا عن الجزية حتى يمكن من زيارة بيت المقدس.(حاشية ابن عابدين:كتاب الزكاة، 2/313، ط: سعيد)
جب سفر بیت المقدس کے سبب سے غیر مسلم سے ٹیکس لینے کی اجازت نہیں تو سفر عمرہ کے سبب سے مسلمان سے کچھ لینے کی اجازت کیسے ہوگی؟
قواعد اسلامیہ کا مقتضا تو یہ ہے کہ اگر ایسا ناجائز ٹیکس غیر مسلم حکام مسلمانوں سے وصول کرتے ہوں، تب بھی اپنی حدود میں مسلمان حکمرانوں کو غیرمسلموں سے ایسے ٹیکس وصول کرنا جائز نہیں، اس کی نظیر عشر ہے کہ اگر مال تجارت غیر مسلم تاجر کے پاس نصاب سے کم ہو، اور وہ لوگ اپنی مقام حکومت میں مسلمان تاجر سے اس مقدار میں عشر لیتے ہوں، تو ہم غیر مسلم تاجر سے نہ لیں گے، اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ یہ ظلم ہے، اور ظلم میں موافقت نہیں کی جاتی ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ اس رقم کا وصول کرنا قواعد اسلامی کی رو سے ناجائز ہے، اگر غیر مسلم سلطنت ایسی رقم مسلمانوں سے وصول کرتی ہو تو اسلامی ریاست تب بھی غیر مسلم سے وصول نہ کرے گی۔
در مختار میں ہے:
(ولا نأخذ منهم شيئا إذا لم يبلغ مالهم نصابا) وإن أخذوا منا في الأصح لأنه ظلم ولا متابعة عليه.
(حاشية ابن عابدين:كتاب الزكاة، 2/315، ط: سعيد)
دلا ئل مذکورہ صاف صاف دلالت کر رہے ہیں کہ ایسا ٹیکس معتمرین سے وصول کرنا اسلام کی رو سے جائز نہیں۔
باقی اگر زائرین حرمین پر ٹیکس یا اس جیسی مالی پابندی اس وجہ سے عائدکی جائے کہ بار بار جانے سے ازدحام ہوتا ہے، اور یہ رقم عائد کرنے سے بار بار آنے والوں کی روک تھام ہو سکے گی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت وقت کو مباحات اصلیہ سے کسی کو روکنے کا اختیار ہوتا ہے بشرطیکہ اس میں مفاد عامہ کی مصلحت ہو، لیکن جو مباحات شرعیہ ہیں، اس میں حکومت کو کسی کو منع کرنے کا اختیار نہیں،چنانچہ حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ ماہنامہ بینات میں امام ابو حامد الغزالیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
أن الأفعال ثلاثة أقسام، قسم بقي على الأصل فلم يرد فيه من الشرع تعرض لا بصريح اللفظ ولا بدليل من أدلة السمع فينبغي أن يقال: استمر فيه ما كان ولم يتعرض له السمع فليس فيہ حكم،
وقسم صرح الشرع فيه بالتخيير وقال: إن شئتم فافعلوه وإن شئتم فاتركوه فهذا خطاب والحكم لا معنيى له إلا الخطاب ولا سبيل إلى إنكاره وقد ورد.
وقسم ثالث: لم يرد فيه خطاب بالتخيير لكن دل دليل السمع على أنه نفى الحرج عن فعله وتركه.
(المستصفی فی علم الاصل، ۱/۶۰، دارالکتب العلمیۃ)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ افعال مباحہ تین قسم پر ہیں:
۱) ایسے افعال جن کے متعلق شریعت نے کسی قسم کا حکم نہیں دیا، نہ ان کے کرنے کے بارے میں اور نہ کرنے کے بارے میں، ایسے افعال کو اصول فقہ کے اصطلاح میں ’’مباح الأصل‘‘ کہا جاتا ہے، اور اس حالت کو اباحت اصلیہ کہتے ہیں، مثلاً:سڑک پر اس طرف چلو یا نہ چلو، تین روز گوشت کھاؤیا نہ کھاؤ، فلاں ملک کا کپڑا پہنو یا نہ پہنو۔
۲) وہ افعال جن کے بارے میں شریعت نے خود بتلا دیا کہ تم کو اختیار ہے کہ ان کو کرو یا نہ کرو، ایسے افعال کو مباح شرعی کہا جاتا ہےاور اس حالت کو ’’اباحت شرعیہ‘‘ کہتے ہیں، مثلاً: ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا حکم کہ اس کے بارے میں شریعت نے کھول کر بتلا دیا ہےکہ تمہیں اختیار ہے کہ چاہے ایک سے زائد بیویاں رکھو یا نہ رکھو۔
۳) ایسے افعال جن کے کرنے یا نہ کرنے میں تو قرآن وحدیث میں صریح حکم موجود نہیں، لیکن ادلۂ شرعیہ میں کوئی دلیل اس بات کو بتلاتی ہے، کہ اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،
اب واضح رہے کہ حکومت کو صرف پہلی قسم کے افعال میں تصرف کرنے کا حق حاصل ہے، یعنی حکومت اس قسم کے قوانین بنا سکتی ہے، کہ دائیں طرف چلو، بائیں طرف نہ چلو، یا فلاں ملک کا کپڑا پہنو یا نہ پہنو، ہفتہ میں دو روز گوشت نہ کھاؤ، کیونکہ ان امور کی اباحت شریعت سے نہیں معلوم ہوتی، البتہ دوسری قسم یا تیسری قسم کے افعال میں حکومت کو پابندی لگانے کا کسی قسم کا کوئی حق نہیں، کیونکہ شریعت کے کسی امر میں تبدیلی کا حکومت کو سرے سے کوئی حق ہی نہیں، حکومت کو مباح کی دوسری اور تیسری قسم میں تبدیلی کا کوئی حق نہیں ہے۔
عمرہ ادا کرنا، بار بار عمرہ کرنا مباح اصلی نہیں، بلکہ مباح شرعی ہے بلکہ اس کی تو ترغیب ہے، جس کی وجہ سے جمہور فقہاء کرام نے اسے مستحب لکھا ہے، چنانچہ فتاوی شامی میں ہے:
فلا يكره الإكثار منها خلافا لمالك، بل يستحب على ما عليه الجمهور.
(حاشية ابن عابدين:كتاب الحج، 2/472، ط: سعيد)
سلف صالحین سے بھی بکثرت عمرہ کی ادائیگی ثابت ہے، جس کی وجہ سے کثرت عمرہ مستحب بمعنی ما أحبه السلفبھی ہے، بار بار عمرہ کی ادائیگی کا فائدہ یہ بھی ہے کہ بیت اللہ ہر وقت زائرین سے آباد رہتا ہے ۔ چنانچہ ابوبکر جصاص رازیؒ احکام القرآن میں لکھتے ہیں:
الثاني أنه أحب عمارة البيت وأن يكثر زواره في غيرها من الشهور۔(سورة البقرة: 1/3۵۵، ط: دار إحياء التراث العربي)
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ بار بار عمرہ کرنا مباح شرعی ہے لہذاکسی حکومت کو اس سے روکنے اور پابندی لگانے کا حق نہیں ہےاور اس پر ٹیکس لگانا بھی ناجائز اور حرام ہے اورایسا ٹیکس غیر شرعی ،ناجائز اورظالمانہ ہے۔