بے پردہ خواتین کادینی پروگرام کرنا
سوال :۔ میں دین کا طالب علم ہوں اور آپ کا مسلسل قاری ہوں ،اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کا علم و عمل اور فیض سلامت رکھے ۔ حضرت سوال یہ ہے کہ آج کل ٹیلیویژن پربے خواتین بے پردہ ہو کے تلاوت، نعت ،ذکر واذکار کی محافل دینی پروگرام اور محرم الحرام کے دنوں میں مجالس کرتی ہیں، لوگوں کے ساتھ نشستیں بھی کرتی ہیں، یہ کام ریڈیو پر بھی ہوتا ہے،کیا ان کو یہ کرنا شرعًا جائز ہے؟ اور کیا ان کو سننا یا دیکھنا لوگوں کیلئے جائز ہے ۔؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب کا طلبگار ہوں، آپ کی ذرہ نوازی ہو گی۔حسنین احمد لاہور
جواب:۔ ٹیلی ویژن پر مذکورہ پروگرامات کئی مفاسد پر مشتمل ہونے کی بنا پر ناجائزہیں:
1۔ ان پروگراموں میں ویڈیو سازی کی جاتی ہے ، جس میں جان دار کی تصاویر ہوتی ہیں، جو شرعا ناجائز اور حرام ہے۔
2۔ بسا اوقات ان میں آلاتِ موسیقی کا استعمال بھی ہوتا ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔
3۔۔ صحیح مضامین پر مشتمل نعت وغیرہ سننے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ان اشعار کو پڑھنے والا پیشہ ور گویا، فاسق، بے رِیش لڑکا یا عورت نہ ہو، لہذا عورتوں کا نعت وغیرہ پڑھنا اور اس کی تشہیر کرنا خود ایک مستقل فتنہ ہے۔
4۔۔ خواتین بے پردہ ہوتی ہیں۔
5۔ مخلوط محافل ہوتی ہیں، جب کہ نامحرم مرد اور عورت کا اختلاط شرعا ناجائز ہے۔
7۔ عورت کی آواز بھی فتنہ کا سبب ہے، اس سے بھی احتراز لازم ہے۔
لہذا اس طرح کے پروگرام کرنا ، سننا، دیکھنا سب ناجائز ہے۔ہاں اگر ریڈیو پر کوئی مرد نعتیہ کلام پڑھے، یا تلاوت کرے، جس میں موسیقی وغیرہ نہ ہو تو اس کو سنا جاسکتا ہے۔
اس موقع پر اپنے شیخ، محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ کا یہ تاریخی مقولہ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں جو ان لوگوں کی بات کا جواب ہے جو ٹی وی وغیرہ پر دینی پروگرام کرنے کا اشاعت دین کا نام دیتے ہیں ، کہ :
’ہم لوگ (مسلمان) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بناکر چھوڑیں گے، ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع اور وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں۔ اسلام نے جہاں ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں۔ ہم ان آداب اور طریقوں کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور تبلیغ کے آداب کو پسِ پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں۔ اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیونکہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی۔(بحوالہ نقوشِ رفتگاں، ص:۱۰۴،۱۰۵)