لفظ’’آزاد‘‘سے طلاق کا وقوع



سوال: ۔احمد نے اپنی بیوی سے مذاق میں کہا کہ میری طرف سے تم آزاد ہو، اس آزاد سے مراد یہ تھی کہ بیوی کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اس پر، احمد کی نیت طلاق کی نہیں تھی اور بات بھی مذاق میں کی تھی، سنجیدگی یا غصہ میں بات نہیں تھی، براہ مہربانی مسئلہ بتادیں ۔( فیصل۔ اسلام آباد)
 
جواب :  لفظ " آزاد " ہمارے عرف میں طلاق کا لفظ ہے اوراس مقصد کے لیے بالکل صاف اورصریح ہے۔صریح کامطلب یہ ہے کہ  عام طور پر طلاق دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔جو لفظ اس  قسم کا ہو اس میں نیت  کی ضرورت نہیں ہوتی  بلکہ اس کاعام استعمال ہی نیت کا قائم مقام ہوتا ہے۔بنابرایں جب شوہریہ لفظ زبان پر لایاتو اس نے اپنی منشاء کوخود ہی اس لفظ کے ذریعے بیان کردیا ہے ،اب اس  کی نیت   ٹٹولنے کی اورمنشاء دریافت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جوکچھ کہنا تھا وہ اس نے صاف اورواضح لفظوں میں کہہ دیا ہے۔شوہر کایہ عذر  بھی قابل قبول نہیں ہے کہ اس نے مذاق میں اس لفظ کا استعمال کیاتھا  کیونکہ طلاق کے معاملے میں سنجیدگی اور مذاق برابر ہیں ،دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ جوطلاق واقع ہوئی ہے  اس سے رشتہ زوجیت ختم ہوگیا ہے کیونکہ شرعی زبان میں یہ لفظ بائن ہے۔اب حکم یہ ہے کہ  عدت میں یا عدت  کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے  اورآیندہ شوہر کو دوطلاقوں کاحق ہے۔