تین طلاقوں کے بعد میاں بیوی کاساتھ رہنا
سوال :۔میرا نام علی حیدر ہے میری عمر لگ بھگ 65 سال ہے۔ میری بیوی ہمیشہ سے ہی نافرمان رہی لیکن میں نے ساری زندگی سمجھوتہ کرتے ہوئے گزار دی۔ دو سال پہلے کچھ ایسے مسائل سامنے آئے کہ میں نے وقفے وقفے سے تینوں طلاقیں دے دیں ۔ وقفہ دیتا رہا شاید وہ سمجھ جائےلیکن اس نے اپنی حرکتیں نہیں چھوڑیں۔ آخر تینوں طلاقیں دے دیں۔ وہ یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ مجھے شوہر نے طلاق دے دی لیکن وہ میرے ساتھ ہی میرے گھر میں پہلے کی طرح رہ رہی ہے کہتی ہے کہ میں جب تک طلاق کو نہیں مانوں گی طلاق نہیں ہوگی۔
برائے مہربانی مجھے وضاحت کر دیجیے کہ کیا طلاق ہونے میں بیوی کا ماننا ضروری ہے یا شوہر کے کہنے سے طلاق ہو جاتی ہے۔طلاق دینے کے بعد ہم نےہمبستری نہیں کی لیکن وہ بیوی کے نام کے ساتھ میرے کمرے میں میرے ساتھ اسی طرح رہ رہی ہے جیسے پہلے تھی۔کسی کو بھی معلوم نہیں کہ ہماری طلاق ہو چکی ہے۔ میری رہنمائی کیجیے کہ میں کیا کروں کیا درست ہے۔
اس طرح وضاحت کیجیے قران و سنت کی روشنی کہ میں اس کوبھی بتا سکوں تا کہ اسکی بھی رہنمائی ہو سکے اور گناہ کے ارتکاب سے ہم بچ سکیں۔
جواب:۔طلاق رجعی ہویا بائن، ایک ہویا تین ،بیوی کی رضامندی ہو یا نہ ہو،طلاق کا کوئی معقول سبب ہویانہ ہو،جب بھی شوہر اپنے اختیارطلاق کو استعمال میں لائے گا،طلاق واقع ہوجائے گی ،اس سلسلے میں بیوی کاطلاق کو تسلیم کرنا یانہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا،طلاق کی گرہ شریعت نے شوہر کے ہاتھ میں دی ہے جب بھی وہ اسے کھولے گا تو گرہ کھل جائے گی اور طلاق ہوجائے گی ۔آپ نے تو وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی ہیں لیکن بالفرض ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیتے تو پھر بھی تینوں واقع ہوجاتی ۔اگر چہ تین طلاق ایک ساتھ دینا بدعت اورناجائز ہے مگر گناہ ہونےکے باوجود شوہر کافعل اپنا شرعی اثر رکھتا ہے اورنتیجے میں رشتہ زوجیت ختم ہوجاتا ہے۔قرآن کریم نے ظہار کو قول زورکہا ہے مگر اس کے باوجود ظہار کرنے سے ظہار ہوجاتا ہے،اسی طریقے سے نفس طلاق بھی مباح امور میں مبغوض ترین شے ہے مگر جب شوہر اپنے اس اختیارکو استعمال میں لاتا ہے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ بہرحال تین طلاقیں ایک ساتھ ہوں یا الگ الگ ، قرآن وحدیث، جمہور صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور بالخصوص ائمہ اربعہ اورامام بخاری ؒ کی تصریح کے مطابق تینوں واقع ہوجاتی ہیں، نکاح ختم ہوجاتا ہے ،بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہے ،علیحدگی واجب ہوجاتی ہے،اجنبی مرد وعورت کی طرح میاں بیوی کاایک دوسرے سے پردہ لازم اورایک ساتھ رہناناجائز ہوجاتا ہے۔اب چند دلائل ذکر کرتا ہوں جس سے معلوم ہوگاکہ تین طلاقوں کے بعدرشتہ زوجیت ختم ہوجاتا ہے۔قرآن کریم میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر۲۲۹ میں طلاقوں کی آخری حدتین بیان کی گئی ہے اورتیسری طلاق کے بعد ارشاد فرمایاگیا ہے کہ بیوی اس وقت تک شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی جب تک شوہر کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہ کرلے (۱)محمود بن لبید سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئے اور ارشاد فرمایا: ’’ کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے؟ حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں‘‘، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھ کر ایک صحابی کھڑے ہوگئےاور عرض کیا :یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ! کیا اسے قتل نہ کردوں؟(۲)حدیث مذکور سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ساتھ دی جانے والی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اگر واقع نہ ہوتیںتو آپ ﷺغضبناک نہ ہوتے اور فرمادیتے کہ کوئی حرج نہیں، رجوع کرلو ۔حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین طلاقیں دیدیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نافذ کردیا ، یعنی تین کو ایک نہیں قرار دیا(۳) عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس سے کہا کہ آپ اپنی طلاق کا قصہ بیان کیجئے، تو انہوں نے کہا :میرے شوہر یمن گئے ہوئے تھے، انہوں نے وہیں سے مجھے تین طلاقیں دیدیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں طلاقوں کے واقع ہوجانے کا فتویٰ صادر فرمایا(۴)حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایسا شخص لایا جاتا،جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوتی تو آپ اس کو سزا دیتے اور دونوں میں تفریق کردیتے(۵)معاویہ ابن یحی فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہا : میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دیدی ہے، تو آپ نے جواب دیا :تیری بیوی تجھ سے تین طلاقوں سے جدا ہوگئی (۶)حضرت حبیب ابن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دیدی ہے، تو آپ نے فرمایا : تین طلاقوں سے عورت تجھ سے بائنہ ہوگئی(۷) ایک شخص نے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو (۱۰۰) طلاقیں دیدی ہیں،حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ان میں سے تین معتبر ہیں، اور بقیہ ستانوے (۹۷) غیر معتبر(۸)حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب کسی ایسے شخص کے متعلق سوال کیا جاتا ،جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدی ہوں تو آپ جواب دیا کرتے :اگر ایک بار یا دو بار طلاق دی ہوتی تو رجعت کرسکتاتھا، اس لیے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اسی کا حکم دیا تھا لیکناگر تین طلاقیں دی ہیں تو وہ حرام ہوگئی، جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے(۹)معجم کبیر میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے قیامت کی علامات بتائیں، ان میں سے ایک یہ بتائی کہ حرامی (ناجائز اولاد) کی کثرت ہوجائے گی، روای سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے ہوگاحالانکہ وہ مسلمان ہوں گے، قرآن ان کے درمیان ہوگا ، تو انہوں نے جواب دیا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے گا ، پھر اس کی طلاق کا انکار کرے گا، اور اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات برقرار رکھے گا تو یہ دونوں زنا کرنے والے ہوں گے(۱۰)
۱۔سورۃ البقرۃ :۲۲۹،’’ روح المعاني(۲/۲۰۴)
۲۔السنن للنسائي(۲/۸۲ ، کتاب الطلاق)
۳۔السنن لأبي داود(ص/۳۰۶)
۴۔السنن لإبن ماجۃ(ص/۱۴۵)
۵۔المصنف لإبن أبي شیبۃ(۹/۵۱۹ ، من کرہ أن یطلق الرجل امرأتہ ثلاثاً)
۶۔ہامش مصنف عبد الرزاق(۶/۳۹۴ ، باب المطلق ثلاثا)
۷۔المصنف لإبن أبي شیبۃ(۹/۵۲۳)
۸۔المصنف لعبد الرزاق(۶/۳۹۶ ، باب المطلق ثلاثاً)
۹۔صحیح البخاري(۲/۷۹۲ ، کتاب الطلاق)
۱۰۔المعجم الکبیر للطبرانی (5/ 161، 162، دارالکتب العلمیہ)