قیدی عورتوں کے حقوق
سوال:۔آج کے جنگ کے پرچے میں اور پچھلے ہفتے اسی دن کی اشاعت میں آپ نے خواتین کے حق وراثت کو موضوع بنایا ہے۔اس ضمن میں آپ نے ایک مسودہ قانون کا ذکر کیا ہے جو خواتین کے حقوق پر مشتمل ہے اور اس کے کچھ اقتباسات آپ نے اپنے جواب میں شامل اشاعت کیے ہیں۔میراتعلق شعبہ قانون سے رہا ہے اور فقہ اسلامی سے بھی دلچسپی رہی ہے ۔مجھے اس مسودہ کاسن کر اور اس کے کچھ اقتباسات پڑھ کر خوشی ہوئی کہ بڑی جامعیت اور قابلیت کے ساتھ عورتوں کے حق وراثت کو قانون میں سمویا گیا ہے۔یقینا اس کی ضرورت ہے اور اسے قانون کا درجہ دیا جانا چاہیے۔اس وقت آپ سے ہم کلامی کا اصل مقصد یہ ہے کہ عورتوں کاحق وراثت دراصل ان کے عائلی اورشخصی حقوق کا ہی ایک حصہ ہے جب کہ ہمارے ملک میں عائلی قوانین روزاول سے ہی متنازع رہے ہیں اس لیے میں عورتوں کے عائلی حقوق کے بارے میں صحیح اسلامی نقطہ نظردیکھنا چاہتا ہوں جس سے میرا مقصد یہ جانچ ہے کہ اسلام نے کس قدر حقوق عورت کو بخشے ہیں اور ہمارے قوانین کس حد تک اسے یہ حقوق عطاکرتے ہیں یااس کا تحفظ کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہمارے ملک میں قیدی خواتین کے مسائل بھی فوری توجہ چاہتے ہیں ۔جیلوں میں عورتوں کے ساتھ جو رویہ رکھا جاتا ہے میری رائے میں اسے اسلامی تو کجا انسانی کہنا بھی مشکل ہے ۔یقینا آپ نے اپنی مذکورہ کاوش میں اس جانب بھی توجہ دی ہوگی اور اس بارے میں بھی قانون ساز اداروں کے سامنے رہنما خطوط واضح کیے ہوں گے۔اگر ایسا ہے تومیں امید کرتا ہوں کہ آپ اسےمیرے لیے اورمجھ جیسے اور دلچسپی رکھنے والوں کے لیے نظرنواز کریں گے۔ایم ایے فاروقی ،ایڈووکیٹ
جواب:۔ عائلی حقوق اسلام میں بہت اہمیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے قرآن کریم میں احکام کے بیان کےلیے جتنی آیات ہیں ان میں زیادہ تر کا تعلق شخصی اورعائلی حقوق سے ہے۔عائلی حقوق کی اس اہمیت کی وجہ سے مذکورہ قانون میں تقریبا ستر کے قریب دفعات اسی موضوع پر ہیں۔ان تمام دفعات کی ایک کالم میں اشاعت ممکن نہیں معلوم ہوتی اس لیے سردست اس کو نظرانداز کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے البتہ کسی مناسب موقع پر اسے شامل اشاعت کیاجاسکتا ہے۔آپ نے قیدی عورتوں کے ساتھ جس غیر انسانی رویے کا ذکر کیا ہے وہ واقعی افسوسناک ہے اورہمارے نظام عدل وانصاف کی بہت بڑی خامی ہے جو فوری اصلاح چاہتی ہے۔مذکورہ مسودے میں قیدی عورتوں کے حقوق کے متعلق جیل اصلاحات پر زور دیا گیا ہے چنانچہ اس کی دفعہ ۱۲۹ میں قراردیا گیا ہے کہ :
دفعہ129 ۔جیل کے متعلق اصلاحات:
الف۔عورتوں کے لیے علیحدہ جیل ہوگی, جس کی منتظمہ کوئی خاتون افسر ہوگی۔
ب۔زچہ قید خانہ میں پیدا ہونے والے بچے کو مکمل نگہداشت فراہم کی جائےگیاورچھ سال سے کم عمربچےاپنے قیدی ماں کے ساتھ رہ سکیں گے۔
ج۔کسی مجرم خاتون کو گرفتارکرنے اورعدالت یا جیل تک لانے کی ذمہ داری خاتون پولیس کی ہوگی۔
د۔خواتین پولیس اسٹیشنوں میں عورتوں سے ہتک آمیزرویے سے اجتناب کیاجائےگا،عصمت فروشی،بردہ فروشی،جاسوسی وغیرہ میں ملوث خواتین کے جرائم کی خصوصی چھان بین کی جائے گی، تاکہ اصل حقائق معلوم ہوں ،جرم کے محرکات واضح ہوں اوران کاسد باب کیاجاسکے۔
ہ۔ذہنی وجسمانی تشدد ،ہتھکڑی اور بیڑی پہنانے سے پرہیز کیا جائےگا، مخلوط جیلوں میں مرد جیلرز اور جیل کے دوسرے عملہ سے ملاقات پر پابندی ہوگی،رات کے وقت صرف لیڈی وارڈن یا لیڈی سپر وائزر خواتین جیل کادورہ کرسکتی ہیں۔
و۔نسوانی ضروریات کا خاص رکھا جائے گا،چھوٹے بچوں کے ساتھ رہنے والی خواتین کی رہائش کا الگ انتظام ہوگا، قیدی عورتوں کے ساتھ موجود ان کے بچوں کی خوراک ،لباس ،تعلیم اور طبی ضروریات کی زمہ داری جیل انتظامیہ کی ہوگااورعورتوں کی جیل کے ساتھ ان کے بچوں کے لیے اسکول کا اورخودعورتوں کے لیے جیل میں دستکاری اور مناسب نسوانی فنون کا بندوبست کیا جائے گا۔
ز۔جیل میں ایسا ماحول فراہم کیا جائے گاکہ قیدی عورتیں اسلامی اقدارسے واقفیت پیدا کرسکیں اورانہیں پرامن اورقانون کی پابند شہری کی ترغیب مل سکے۔
ح۔عورت خواہ مجرم ہی کیوں نہ ہو وہ انسان ہے اور انسانی حقوق کا تحفظ اسلام کا طرہ امتیاز ہے،لہذاقیدی خواتین کو صاف ستھرا ماحول،متوازن غذا اور مناسب طبی امداد اور ضروریا ت فراہم کی جائیں گی۔
ط۔اگر کسی عورت کے شوہر کی قید چھ ماہ یااس سے زائد ہو تو ہر چھ ماہ پر اسے پیرول کیا جائےگا، یا اس کی بیوی کو اس کے ساتھ چندروز ٹھہرنے کی اجازت ہوگی اور اس مقصد کے لیے مناسب فیملی کوارٹرزکا انتظام کیا جائےگا۔