نرینہ اولاد نہ ہوتو تمام جائیداد بیٹیوں کے نام کرنا



سوال :۔ کیا میں  اپنیپراپرٹی اپنی زندگی میں  اپنی بیٹیوں کے نام کر سکتا ہوں کیونکہ  میرا کوئی   بیٹا نہیں  ہے۔ اسلام کیا کہتا ہے؟
 
جواب:۔جب تک آپ حیات ہیں اپنی جائیداد کے مالک ومختار ہیں اور مالک ومختار ہونے کی حیثیت سے آپ جس کے نام جائیداد کرکے اس کےحوالے کردیں گے وہ مالک ہوجائے گا مگر شریعت کامنشاء یہ ہے کہ کسی وارث کو کسی معقول وجہ کے بغیر اس کے متوقع حصہ وراثت سے محروم نہ کیاجائے۔اگر بیٹیوں  کے علاوہ آپ کی بیوی حیات ہے اور کوئی قریبی رشتہ دار مثلا بھائی یا بھتیجا وغیرہ بھی ہے تو میراث کے قانون کے مطابق بیٹیاں دوتہائی کی مستحق ہوں گی  اور بیوی آٹھویں کی اوربقیہ دیگر قریبی رشتہ دار کا ہوگا۔اب اگر آپ نےساری جائیداد بیٹیوں کو دے دی تو بیوہ اور دیگر ورثاء کے لیے کچھ نہیں بچے گا اور محروم رہ جائیں گے جس سے ان کی دل آزاری  ہوگی  اور یہی دل آزاری ان میں قطع رحمی کا سبب بنے گی جب کہ شریعت نہیں چاہتی  کہ ان میں قطع رحمی ہو  لہذااگر بیٹیوں کے علاوہ آپ کا کوئی  اور بھی متوقع وارث ہے اور ان  کے لیے آپ میراث میں کچھ نہیں چھوڑتے تو آپ کا عمل مکروہ  ہوگااگر چہ جیساذکر کیا گیا کہ مالک ومختار ہونے کی حیثت سے آپ جس کوزندگی میں کچھ دے جائیں گے تو وہ مالک ہوجائے گا۔یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی بالغ یا بالغہ  کے نام  کوئی جائیداد کی جائے تو جب تک  جائیداد کو با قاعدہ تقسیم کرکے ہر ایک  کو اس کے حصے  کا قبضہ نہ دیا جائے اس وقت تک وہ مالک نہیں بنتا ہے۔حاصل یہ نکلا کہ آپ  زندگی میں دوتہائی بیٹیوں کو  دے دیں اور آٹھویں حصے تک بیوی اگر حیات ہے اسے دے جائیں اور بقیہ دیگر وارثوں کے سپر د کرجائیں اور جسے دیں اسے قبضہ بھی دے جائیں تو جائیداد بھی زندگی میں تقسیم ہوجائے گی اور شریعت کو بھی آ پ کے فعل پرکوئی اعتراض نہ ہوگا۔