انٹرنیٹ پر خریداری



سوال:۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اب  لوگ  گھر بیٹھےانٹرنیٹ پر خریداری کرتے ہیں ۔انٹرنیٹ پر خریداری کے مختلف طریقے ہیں ۔عام اورمشہور طریقہ یہ ہے کہ بائع اپنی پروڈکٹس کی تصاویر اور  متعلقہ تفصیلات اپنی ویبسائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کردیتا ہے،ویبسائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیا کو دیکھ کراپنی پسند کردہ شے پر کلک کرکےاس شے کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے۔رقم کی ادائیگی کیلئے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں ،کبی  ادائیگی ڈیلورری پر کی جاتی ہے یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ  ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بیجتا  ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے۔ مبیع کی ادائیگی بعض اوقات کسی کوریئر سروس کے ذریعے کی جاتی ہے اوربعض اوقات کمپنی خود یہ کام کرتی ہے۔ضروری  نہیں کہ مبیع کی بائع کی ملکیت میں موجود ہو بلکہ وہ آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور خریدار کے ایڈریس  پر یہ اشیاء ارسال کردیتا ہے۔ میراسوال اس تمام طریقہ کار کے حکم کے متعلق نہیں ہے بلکہ  فقہ کے ایک طالب علم ہونے  کی حیثیت سے میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس طریقہ کارمیںبائع کا اپنی سائٹ پر اپنی مصنوعات ظاہر کردینا کیا فقہی حیثیت رکھتا ہے بالفاظ دیگر انٹرنیٹ پر خریداری کی صورت میں  ایجاب کب مکمل ہوتا ہے؟ عثمان غوری،کراچی
جواب :۔ بظاہر خریدار کا اپنی مطلوبہ چیز پر کلک کردینا قبول معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے  اوربائع کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہےقبول نہیں جیسے دوکان داراپنےاسٹال پراشیاءلگادیتا ہےاوران پر قیمت بھی چسپاں ہوتی ہیں یا قیمت لکھ لگادیتا ہےمگر وہ ایجاب نہیں ہوتا بلکہ  ایجاب  کی دعوت ہوتی ہے اسی طرح ویب سائٹ پر بائع  کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوت ایجاب ہے اورجیسے دوکان پر دوکان دار  کی طرف سے قبول ہوتا ہے اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کاعمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے۔ایک عام دوکان پر اگر خریدار  اوردوکان دار زبان سے کچھ نہ کہیں تو دونوں جانب سے بیع  تعاطی(لینے دینے) سے مکمل ہوجاتی ہے اوراگر خریدار زبان سے خریدار ی کی خواہش کا اظہارکرے اوردوکان دار زبان سے کچھ نہ کہے بلکہ چیز حوالے کردے یا ثمن قبول کرلے تو بایع کی طرف سے فعلا قبول ہوتا ہے اسی طرح ویب سائٹ  پر بھی فعلی قبول ہوجاتا ہے۔بہرحال چیزوں کو پیش کرنا ایجاب نہیں بلکہ ایجاب کی دعوت ہوتا ہے  یہی وجہ ہے کہ دوکان میں جب خریدارکو ئی چیز اٹھالیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی بلکہ کاؤنٹر پر آکر باؤتھاؤ ہوتا ہے اگر چیزوں کو پیش کرنا ایجاب ہوتا تو خریدار کے اٹھا لینے اور کاؤنٹر پر پیش کرنے کے بعد اسے واپس لینے کا حق نہ ہوتا۔اسی طرح اخبارات، مجلات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے کسی بھی پراڈکٹ کو بیچنے کا اعلان اسےخریدوفروخت کے لیے پیش کرنا ہوتا ہے،یہ اس کمپنی یا فرد کی جانب سے  ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ خریدنے  کی دعوت ہوتی ہے، اب اگر کوئی شخص اس اعلان کی وجہ سے اس شے کو خریدنے آئے تو یہ ایجاب ہوگااور  بائع کو اختیار ہوگا کہ وہ ایجاب کو قبول کرے یا نہ کرےالبتہ مالکیہ کے ہاں ایک جزئیہ ملتا ہے جس میں دعوت عام کو بھی ایجاب شمار کیاگیا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس دعوت کے ساتھ  بائع اس بات کی صراحت کرے کہ میری  غرض  اس سےایجاب ہے،لیکن عام حالات میں یہ صراحت مفقود ہوتی ہے، لہذا اسے ایجاب شمار نہیں کیا جائے گا۔
حاشية الدسوقي على الشرح الكبير - (10 / 440)
وأما لو عرض رجل سلعته للبيع وقال :من أتاني بعشرة فهي له فأتاه رجل بذلك إن سمع كلامه أو بلغه فالبيع لازم وليس للبائع منعه ، وإن لم يسمعه ولا بلغه فلا شيء له ذكره في نوازل البرزلي ومثله في المعيار ا ه
مختلف ویب سائٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ شے پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے قبول کرلیتا ہے یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتاہے، فقہا ءنے لکھا ہے کہ جب ایجاب تحریری ہو تو جس مجلس میں ایجاب پہنچا ہے اسی میں قبول کرنے سے بیع مکمل ہوجاتی ہے۔
تحريری طور پر ایجاب و قبول کی صورت میں عقد کب مکمل ہوگا؟ قبول کے اعلان کے وقت  یا قبول لکھ کر بھیجنے کے بعدیا قبول کو وصول کرنے کے بعد یا وصولیابی کے بعد اس کا علم ہونے کے بعد، فقہا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ عقد تب لازم ہوتا ہے جب ایجاب کے بعد قبول کا اعلان کیا جائے ، چاہے ایجاب کرنے والے کو اس کا علم ہو یا نہیں۔