والدکے ساتھ کاروبار میں معاونت اوربھائیوں کی کمائیوں کاحکم



سوال:۔میرے بڑے بھائی میٹرک کرنے کے بعد پڑھائی چھوڑ کروالد صاحب کے ساتھ کاروبار میں لگ گئے تھے۔چھوٹے بھائیوں نے پڑھائی مکمل کی اور ملازمتیں شروع کردیں۔گھر کا خرچ اور بھائیوں کے پڑھائی کے اخراجات سب کاروبار سے ہوتے رہے،والد صاحب نےبڑے بھائی کو ایک فلیٹ دے دیا تھا اور بھائی اسی میں اپنے بچوں سمیت رہائش کے لیے منتقل ہوگئے تھے۔والد صاحب کے انتقال کے بعد بھائی کے ایک دوست تھے جنہوں نے بھائی کو اپنے ساتھ شامل کیا اور بھائی کو کافی فائدہ ہوا  اور اس سے بھائی نے ایک قیمتی دوکان خرید کرکرایہ پراٹھا دی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ والد نے بھائی کو جو فلیٹ دیا اس کی کیا حیثیت ہے؟
بڑے بھائی نے والد کا بہت ہاتھ بٹھایا اور کام سنبھالا ،کیا اسے دیگر بھائیوں سے زیادہ ملنا چاہیے؟
 
جو بھائی ملازمت کرتے ہیں اور ان کے فنڈز محکموں میں جمع ہیں مثلا گریجویٹی اور جی پی فنڈ وغیرہ ،اس میں سب کا حق ہے یا صرف ان ہی بھائیوں کے ہیں ؟
جواب:۔جو فلیٹ والد نے  بڑے بیٹے کو دیا اور بیٹا والد کی زندگی میں اس پرقابض ومتصرف بھی ہوگیا وہ فلیٹ صرف بڑے بیٹے کا ہے اور والد کی میراث میں تقسیم  نہیں ہوگا۔والد اگراولاد میں سے کسی کی خدمت کےصلے میں اور اس کی ضرورت کو دیکھتے ہوئےاسے کچھ دے اورمقصد اوروں کو دکھ دینا نہ ہوتو شرعا ایسے عطیہ کی اجازت ہے۔ 
۲۔بڑابھائی کاروبار میں والد کا معاون اور مددگار تھا مگر اصل کاروبار اورکاروبار میں بیٹے کی شرکت سے جوترقی اوراضافہ ہوا وہ سب والد کا تھا ،اس لیے بڑابھائی اپنے خدمت کے سلسلے میں اپنے حق وراثت سے زیادہ کا حق دارنہیں ہے۔
۳۔دیگربھائیوں کے جو فنڈز محکموں میں جمع ہیں وہ ان ہی کے تنہا ملکیت ہیں۔