مالک کوحق پہنچ جائے توپہنچانے والابری الذمہ ہے



سوال : ۔مفتی صاحب میں بچپن میں یعنی 30 سال پہلے دین سے ناواقف تھا۔جس وقت میری عمر 18 یا 20 سال تھی،کبھی کبھی  خالو کے جیب سے 10 روپے کبھی 50 کبھی 20 اس طرح اکثر اٹھایا کرتا تھا یا کبھی مجھے کسی سودا سلف کے لیے بجھواتے تو ان میں سے بھی 10یا20 اٹھا لیتا اس کے علاوہ خالو کے بینک سے 8 ہزار نکلوایا۔اب خالو اس دنیا میں نہیں ہے اس کی  بیوہ حیات ہےاور بچے بھی ہیں ۔اب مجھے برائے مہربانی یہ بتائیں کہ میں ان کی ادائیگی کیسے کروں ؟تاکہ آخرت میں رسوائی سے محفوظ رہوں ۔نوٹ ۔ان کے بیوہ اور بچوں کو پتہ بھی نہیں چلے کوئی تجویزدے دیں۔عبداللہ آدم خیل چمن 
 
جواب:۔اللہ پاک سے معافی مانگیں اورخالو کی  جورقم بینک سے نکلوائی اور جتنی آپ نے وقفے وقفے سے اٹھائی ،ان سب کااندازہ لگاگرخالو کے ورثاء کو واپس کردیں۔ورثاء کے سامنے یہ وضاحت ضرروی نہیں ہے کہ یہ رقم آپ کس مدمیں ان کو واپس کررہے ہیں ۔اگربراہ راست  واپس دینا مشکل ہوتو کوئی ایسی تدبیر اختیار کرلیں کہ یہ رقم اصل حق داروں کو پہنچ جائے مثلا ان کے نام پر ارسال کردیں۔شامی(4/283، کتاب اللقطۃ، ط؛ سعید)