ہم جنس پرستی کاحکم



سوال:۔ہم جنس پرستی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیزآخرت میں اس عمل پر کیا سزا ہے۔اگر کوئی توبہ و استغفارکرے،تو کیا پھر بھی اسے اس عمل پرسزا ملے گی؟آج کل یہ وباء بہت عام ہورہی ہے،اس کے متعلق اسلام میں کیا حکم ہے؟
 
جواب:۔ ہم جنس پرستی(لواطت) کا  فعل زنا سے بھی بدتر ہے۔ اس  فعل کی ابتداء حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے کی تھی اور اس کے پاداش میں  ان کی بستی اوپراٹھاکر الٹ دی گئی اور واپس زمین پر پٹخ دی گئی اوراس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔قرآن کریم  نے  جابجاان کے قصے کو ذکر کرکے رہتی دنیا تک ان کو رسوا کیا اور بتا دیا کہ ایسے  لوگوں کی اصل سزا یہی ہے کہ انہیں آسمان تک اٹھاکر زمین پر ماردیا جائے مگر چونکہ کوئی حکومت یہ سزا دینے پر قادر نہیں اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور بعض فقہاءکرام نے اس سے ملتی جلتی یہ سزا تجویز فرمائی ہے کہ ایسے شخص کو کسی بلند مقام سےسر کے بل الٹا گرا کراس پر پتھر برسائے  جائیں اور اس طرح  اسےہلاک کردیا جاَئے۔قرآن کریم کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے بھی اس فعل بد  کی شناعت  اوراس کی سزا بیان فرمائی ہے چنانچہ ارشاد گرامی ہے کہ فاعل اورمفعول دونوں کو قتل کردو ۔ایک اورحدیث میں ہے کہ اوپر اورنیچےوالے دونوں کو سنگسارکردوخواہ محصن ہوں یا نہ ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیق   رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  نے ایسے خبیث شخص کا حال لکھ کر اس کی  سزا دریافت کی ،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا۔حضرت عمر ،حضرت علی اور دوسرے سب صحابہ  رضی اللہ عنہم نے بالاتفاق آگ میں جلانے کا مشورہ دیا۔  حضرت ابوبکر صدیق  ؓنے یہی فیصلہ خالد بن ولید ؓ کو لکھا انہوں نے اس حکم کے مطابق اسے جلادیا۔  حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے بھی اپنے دور  خلافت میں ایسے شخص کو جلایا۔قوم لوط پر سخت عذاب ،نبی کریم ﷺ کے ارشادات اور خلفاء راشدین ؓکے فیصلہ جات  کی روشنی میں حضرات فقہاء کرام  نے اس قبیح فعل پرمختلف اور بہت سخت سزائیں  تجویز کی ہیں مثلا:۱۔ رجم کردیاجائے اگرچہ شادی شدہ نہ ہو۔ ۲۔حد زنا لگائی جائے، یعنی شادی شدہ ہو تو  بذریعہ رجم ہلاک کردیا جائے ورنہ سو کوڑے لگائے جائیں۔۳۔آگ میں جلا دیا جائے۔۴۔ اس پر دیوار وغیرہ گرا کر ہلاک  کردیا جائے۔۵۔کسی بلند مقام سے سر کے بل گرا کر اوپر سے پتھر برسائے جاِئیں حتی کہ مرجائے۔ ۶۔قتل کیا جائے۔۷۔ سخت سزا دے کر قید میں رکھا جائےحتی کے توبہ کرےیا قید ہی میں مرجائے۔۸۔بہت بدبودار جگہ میں قید رکھا جائے۔ان میں سے قتل کی سزا کے متعلق شرط ہے کہ ملزم نے اس فعل کاتکرارکیا ہو۔ یہ وہ سزائیں ہیں جو اس فعل کے مرتکب کے لیے بیان ہوئی ہیں ۔ان سزاؤں میں سے کسی سزاکے نفاذ کاطریقہ یہ ہےکہ  جب  مجرم کاجرم شرعی طریقے سے پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو ریاست کاحق ہے کہ وہ مجرم پرسزا جاری کرے۔عوام کو کسی شخص پر سزاجاری کرنے کااختیارنہیں ہے۔شامی(ج۴/ص۲۶،۲۷،۲۸/ط:سعید)