عورتوں کی عام مساجد میں نمازباجماعت میں شرکت



سوال:۔کیا عورت عیدکی نمازکےلیے نئے کپڑے پہن کرتیز قسم کی خوشبولگاکراعلی قسم کے جوتے پہن کرمسجد جاسکتی ہے؟ اور کیا عورت پر عید کی نماز واجب ہے؟ عورت کے لیے نماز پڑھنے کی بہترین جگہ کونسی ہے گھر یا مسجد؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟ محمدسعیدیاسین،گجرانوالہ
 
 جواب:۔آپ کےجواب میں تھوڑی تفصیل مناسب سمجھتاہوں۔عورتوں کاپنج وقتہ نمازوں کے لیے مسجدجانایاجمعہ اورعیدین کی جماعت میں شریک ہونافی نفسہ جائز ہےمگرآج کل خوف فتنہ کی وجہ سے ممنوع ہے۔خوف فتنہ کامطلب یہ ہےکہ اب زمانہ بدل گیاہے،برائی کادورچل رہاہے،دل پاکیزہ نہیں رہے ہیں اورطبیعتیں شرپسند ہوگئی ہیں چنانچہ عورت گھر سے نکل کرکسی طرح بھی محفوظ نہیں ہےخصوصاجب کہ وہ سنورکر اورفیشن کے ساتھ نکلے اورتاریکی بھی ہو اورمسجد بھی دور ہو۔ہرنماز میں عورت کے ساتھ محرم یا شوہر ہواوروہ اسے مسجدلائے اورلےجائے ،ایساتقریباناممکن ہے۔زمانہ نبوت میں جوعورتیں مسجدنبوی اورعیدگاہ میں حاضرہواکرتی تھیں تواس حاضری کامقصدجانناچاہیے۔اس زمانہ میں مسجد نبوی کےعلاوہ بھی مدینہ منورہ کے اندرتقریبا نومسجدیں آباد تھیں مگرعورتیں شاذونادر ہی کسی دوسری مسجدمیں جاتی تھیں جب کہ مسجدنبوی میں عورتوں کاآنا تین وجوہ سےہواکرتاتھا۔ ایک تو شریعت کے احکام کاسیکھنامقصودہواکرتاتھا کیونکہ دین اتررہاتھااورمردوزن دونوں سیکھنےکےمحتاج تھے۔اب یہ مقصدباقی نہ رہاکیونکہ دین مکمل اورمحفوظ ہوچکا ہے۔دوسری وجہ یہ تھی کہ رسالت مآب ﷺ کی زیارت  مقصودہواکرتاتھی۔مسجد نبوی میں یہ مقصدآج روضہ اطہر کی صورت میں یہ موجود ہے،اس لیے عورتوں کاروضہ شریفہ کی زیارت کےلیےجانانہ صرف جائز بلکہ باعث اجروثواب ہے۔عورتوں کی حاضری  کاتیسرامقصدجگہ کی برکات اورانوارات سے سے فیضاب ہوناہواکرتاتھا۔یہ مقصدبھی آج باقی ہے اوراس مقصدکے لیے عورتوں کونہ صرف جاناجائز ہے بلکہ انہیں جاناچاہیے۔الغرض حرمین شریفین  جانے کی وجوہ تو اب بھی باقی ہیں  اورحرمین میں خوف فتنہ بھی نہیں ہے  مگر دیگر مساجدیاعیدگاہوں میں وہ مقاصداب باقی نہیں  رہے ہیں اورخوف فتنہ بھی ہے،اسی خوف فتنہ کی وجہ سے دورصحابہ سے یہ فتوی چلاآرہا ہے کہ عورتوں کا عام مساجد میں جماعت کےلیے شریک ہونادرست نہیں ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آج کل کی عورتوں نے جو نئے طریقے نکالے ہیں اگر وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آتے تو آپ ﷺعورتوں کو مسجدجانے سے منع فرمادیتے۔سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں کہ عورتوں کے لیے عیدگاہ جانا  مکروہ ہے اورحضرت عبداللہ بن مبارک سے منقول ہےاگر عورت عیدگاہ جانے پر اصرارکرےاورروزمرہ ے اورکام کاج کے کپڑوں میں جانے پر راضی ہوتو شوہراجازت دے اوراگر وہ راضی نہ ہو اوربناؤسنگھارکے ساتھ نئے کپڑوں میں جانے پر اصرارکرے تو شوہر کو حق ہے کہ اسے جانے سے روک دے۔جس حدیث میں ہے کہ سب عورتیں یہاں تک حیض ونفاس والی عورتیں بھی عیدگاہ پہنچیں،اس حدیث کامقصدبھی ماقبل کی گفتگو سے واضح ہے  کہ نماز مقصودنہیں تھی بلکہ تعلیم مقصودتھی کیونکہ حیض اورنفاس والی عورتوں  کے لیے نمازپڑھنا جائز نہیں ہے۔آپ کایہ استفسار کہ عورتوں کاتیز خوشبولگاکراورنیالباس پہن کرجماعت   میں شرکت کرناکیساہے؟جواب یہ ہے کہ جس وقت ،جس زمانہ اورجس جگہ عورتوں کو جماعت میں شریک ہونے کی اجازت تھی اس  اس وقت  بھی انہیں یہ حکم تھا کہ عمدہ لباس اورزیورات  پہن کر اورخوشبو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے فورا بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں، ان پابندیوں کے ساتھ ساتھ  آپ ﷺنے ترغیب یہی دی تھی   کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں  نماز پڑھنا مسجد میں نماز  پڑھنےسے افضل ہے۔جوکچھ تفصیل میں نے عرض کی ہے اس کامقصد یہ ہے کہ عورتوں کوجماعت میں شرکت کے لیے نہیں نکلناچاہیے لیکن اس کایہ مطلب نہیںعورت  کسی غرض سے  باہرنکلی ہوئی ہو اورنمازکا وقت ہوجائے تو وہ نمازقضاکردے ۔اگر عورت  کسی عوامی مقام مثلا اسٹیشن ،ہوائی اڈہ ،شاپنگ سینٹریا تفریحی مقام پر ہواورنماز کاوقت ہوجائے تووہ نمازقضانہ کرے بلکہ کسی علیحدہ جگہ پر پڑھ لے اوراگر مسجدموجود ہوتواس میں نمازاداکرلےاوراتفاقاجماعت ہورہی ہو تو اس میں بھی شرکت کرلے مگر نمازقضانہ کرے۔اس طرح کے عوامی مقامات  پر جومسجدیں ہیں جہاں مرد اورعورتیں دونوں آتی ہیں وہاں کے منتظمین  کو چاہیے کہ وہ  عورتوں کی نماز کے لیے علیحدہ انتظام کریں ،ان کادروازہ اوروضوخانہ الگ ہو  تاکہ وہ پردے سے اپنی مخصوص جگہ پر نمازپڑھ کر واپس چلی جایا کریں۔ملاحظہ کیجیے:تحفۃ الالمعی شرح سنن الترمذی،باب خروج النساء فی العیدین،۲؍۴۱۷،زمزم پبلیشرز۔(عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6/ 159) کتاب مواقیت الصلاۃ، باب خروج النساء إلى المساجد بالليل والغلس، وفیہ باب، ط؛ دار إحياء التراث العربي – بيروت۔مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 837) رقم الحدیث؛1060، باب الجماعۃ وفضلھا، الفصل الاول، ط؛ دار الفكر، بيروت – لبنان۔شرح النووي على مسلم (4/ 161۔البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 163)