وارث کے حق میں وصیت



سوال:۔میرا نام نوشین ہے  ۔کوئٹہ سے تعلق  ہے۔ میرے سسر کا انتقال ہوگیا  ہے اور سسر کی جائیداد ہے۔ ایک گھر کے لیے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ  اس گھر  میں  صرف میرے لڑکوں   کا حصہ  ہے لڑکیوں کا نہیں ۔ انہوں نے یہ بات صرف زبانی کہی تھی  وہ بھی صرف اپنی بیوی کو۔ اب انکی وصیت انکی بیٹیاں نہیں مان رہی  وہ کہتی ہیں کہ یہ غلط ہے آپ بتائیں کہ:
1۔کیا وصیت کو لکھوانا ضروری ہے زبانی وصیت  نہیں ہوتی؟
 2۔آیا ان کی وصیت غلط ہے؟
3۔اور اب کیا   اس گھر میں بیٹیوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟
 
جواب1۔ وصیت کے لیے کتابت یا شہادت لازم نہیں۔اگر وصیت زبانی کلامی ہوتوپھر بھی معتبر ہے۔
2۔ورثاء کے لیے وصیت کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ میراث میں ان کے حصص طے شدہ ہے۔شریعت چاہتی ہے  کہ کوئی شخص وصیت کے ذریعے قانون میراث کو متاثر نہ کرےکیونکہ جب وارث کے لیے وصیت کی جاتی ہے تو اس سے دیگر ورثاء کے حصص متاثر ہوتے ہیں  جس سے ورثاء کے دلوں میں کدورت پیداہوتی ہے اورنوبت قطع رحمی تک پہنچتی ہے۔شریعت نہیں چاہتی کہ ورثاء آپس میں قطع رحمی کریں  اس لیے جب کوئی شخص وارث کے وصیت کرتا ہے تو اس کا نفاذ دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہوتا ہے۔اگر دیگر ورثاء اجازت دیں تو وصیت نافذ ہوتی ہے اوراگر وہ اجازت نہ دیں تو وارث کے حق میں وصیت کالعدم ٹھہرتی ہے۔مسئلہ زیر بحث میں چونکہ بیٹیاں وصیت کے نفاذ پر رضامند نہیں ہیں اس لیے مرحوم کی وصیت اپنے بیٹوں کے حق میں کالعدم ہے اورگھر میں بیٹیوں کو بھی ان وراثتی حصہ ملے گا۔
3۔بیٹیوں کاحق بنتا ہے۔(سنن الترمذي، أبواب الوصایا / باب ما جاء لا وصیۃ لوارثٍ ۲؍۳۲ رقم: ۲۱۲۰، سنن أبي داؤد، کتاب الوصایا / باب ما جاء في الوصیۃ للوارث ۲؍۳۹۶ رقم: ۲۸۷۰ دار الفکر بیروت، سنن النسائي، کتاب الوصایا / باب إبطال الوصیۃ للوارث ۱۱۳ رقم: ۳۶۴۰ دار الفکر بیروت، مشکاۃ المصابیح ۲۶۵) ولا تجوز لوارثہ الخ، إلا أن یجیزہا الورثۃ۔ (الدرایۃ مع الہدایۃ ۴؍۶۴۱)