چاندگرہن کے دن نکاح کی تقریب
سوال:۔ میں جاننا چاہتا ہوں اور فتوی لینا چاہتا ہوں کہ اسلام میں چاند گرہن اور سورج گرہن کی کیا حیثیت ہے، اگر شادی یا نکاح کے دن چاند گرہن لگ جائے تو کیا نکاح نہیں کرنا چاہیے یا یہ کہ ٹائم بدل لینا چاہیے؟ میں نے اپنے بیٹے کی شادی کے دن مقرر کئے ہیں لیکن اب لڑکی والے کہتے ہیں کہ اس دن چاند گرہن ہے، میں نے ان سے کہا کہ دن میں نکاح اوررخصتی کرلیتے ہیں ، چاند گرہن تو رات کو ہے، اس لیے مجھے چاند گرہن کے بارے میں قرآن وحدیث سے بتائیں کہ کیا اس میں نکاح منع ہے یا جائز، یعنی نکاح ، شادی وغیرہ کرکے اس میں نبی ﷺ کی سنت پوری کرسکتے ہیں؟(سید محمد اکمل حسین)
جواب:۔سورج اور چاند گرہن کی حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔جب ان میں سے کوئی نشانی ظاہر ہو تو حق تعالی شانہ کی طرف رجوع کرناچاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد سورج گرہن ہوگیا۔جاہلی تصور یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے حادثے کے بعد ہوتا ہے اس لیے انہوں حضرت ابراہیم کی وفات کو سورج گرہن کا سبب سمجھا مگر یہ تصور چونکہ خلاف حقیقت تھا اس لیے جناب نبی کریم ﷺ نے اس کی تردید فرمائی ،چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ ابوبردہ، ابوموسیٰ ؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو آنحضرتﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت آ گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکر الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“ ۔اس حدیث کا واضح سبق یہ ہے کہ چاندیا سورج گرہن کے وقت ہمیں اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر نماز، دعا اور استغفار میں مشغول ہونا چاہیے مگراس سے کہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس دن میں کوئی نحوست ہے یا چاند کو گہن لگنا بدشگونی یا بدفالی کی علامت ہے۔لوگوں میں اگر اس طرح کے کچھ خیالات مشہور ہیں تو ان کی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ محض توہمات ہیں ۔بہرحال نکاح یا رخصتی کی تقریب اس دن منعقد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہےکیونکہ نہ تواس دن میں کوئی نحوست ہے اورنہ ہی کوئی شرعی ممانعت ہے ۔دوران تقریب اگر اس طرح کاواقعہ رونما ہوجائے تو حاضرین کو حق تعالی شانہ کی طرف متوجہ ہوجاناچاہیے۔صحيح البخاري (2/ 39)