عاقلہ بالغہ کاوالدین کی رضامندی کے بغیرنکاح کرنا
سوال:۔ کیا فرماتے ہیں فقہاء کرام کہ اگر ولی راضی نہ ہو مگر لڑکا لڑکی راضی ہوں، زندگی ساتھ گزارنا چاہتے ہوں تو کیا اُن کا نکاح جائز ہے؟لڑکی کے والد شادی کسیمالدار شخص سےکرانا چاہتے ہیں، دیندار لڑکے سے نہیں۔(فاطمہ، کراچی)
جواب:۔ شريعت نےنکاح کے معاملہ میں عورت کو نہ بالکل بے اختیار بنایاہے اور نہ ہی مکمل آزادی دی ہے بلکہ معاملہ معتدل رکھا ہے کیونکہ جس طرح عورت کو اس کے جائز حقوق نہ دینا ظلم ا ور جور ہے اسی طرح اسے اولیاء کی نگرانی سے بالکل آزاد کردینا بھی بہت سے فتنوں اور مفاسد کا پیش خیمہ ہے۔ان دونوں کے پیش نظر ولی کو حکم ہے کہ وہ شادی کرتے وقت لڑکی کے جذبات اور خواہش کا احترام کرےاور رشتہ تلاش کرنے میں دین داری کو ترجیح دے، دوسری طرف لڑکی کوبھی چاہیے کہ وہ والدین تک اپنی خواہش تو پہنچادے لیکن اپنی رائے اور خواہش پر والدین کی صواب دید کو ترجیح دے کیونکہ ان کی شفقت زیادہ ،عقل کامل اورتجربہ وسیع ہوتا ہے اورجولڑکیا ں والدین کی خواہش کونظراندازکرکےاپنا نکاح خود کرلیتی ہیں وہ شرافت وحیاکے تقاضوں کو بھی رونددیتی ہیں اورآیندہ زندگی میں بھی انہیں بے شمار مشکلات اور الجھنوں کا سامنا کرناپڑتا ہے۔اس کے برعکس جو لڑکیاں والدین کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے ان کے فیصلہ کو دل سے قبول کرلیتی ہیں تو حق تعالیٰ شانہ ان کے لیے برکتوں کے دروازےکھول دیتے ہیں۔ اس ضروری وضاحت کے بعد اگر عاقلہ ، بالغہ لڑکی اپنا نکاح خود کرلے تو اس کی دو صورتیں ہیں : ایک صورت تو یہ ہے کہ لڑکا اس کے جوڑ کا ہے تب تو نکاح درست ہے اوراگرلڑکی نے ایسا قدم اٹھالیا ہے تووالدین کو بھی اس پر راضی ہوجانا چاہیے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ لڑکا اس کاہم پلہ نہیں ہے ،اس صورت میں ولی کوبذریعہ عدالت نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ (رد المحتار) (3 / 84،55)