کریڈٹ کارڈکااستعمال



سوال:۔عرض یہ ہے کہ کئی سالوں سے آپ کے فتوے دیکھ رہا ہوں جس میں کریڈٹ کارڈ کے  حوالے سے ناجائز ہونے کے اشارے پائے جاتے ہیں، لیکن عصر حاضر میں  اکثر ایسی ضرورتیں ہیں جو کہ کریڈٹ کارڈ کے بغیر ممکن نہیں اور واضح ہدایات موجود ہیں کہ اس کی ادائیگی  کریڈٹ کارڈ سے کی جائے اور بالخصوص  ملک سے باہر تو اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔  میں خود کئی سالوں سے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرتا ہوں لیکن غلطی سے کبھی مجھ پر  سود لاگو نہیں ہوا، اس صورت میں اس کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ (عبد الغفار ،جرمنی)
 
جواب:۔آپ نے درست نتیجہ اخذکیا ہے  لیکن میں نے اشاروں کنایوں میں نہیں بلکہ صاف اورواضح لفظوں میں کریڈٹ کارڈ کے استعمال کو ناجائز کہا ہے۔اس کی وجہ کریڈٹ کارڈ کا معاہدہ ہے جس میں دونوں فریق اس پراتفاق کرلیتے ہیں کہ اگرصارف نےبروقت ادائیگی نہ کی تواس سے مقررہ مقدارمیں سودوصول کیاجائے گا۔اس امکانی صورت پر رضامندی کی وجہ سے معاہدہ فاسد ہوجاتا ہے اورفریقین گناہ گارہوجاتے ہیں کیونکہ  گناہ پر رضامندی بھی گناہ ہے۔آپ کواگرچہ کبھی سود اداکرنے کی نوبت  نہیں آئی  مگر بہت سوں کو چاروناچارادائیگی کرنی پڑتی ہے۔پاکستان کی حدتک فی الحال  صورت حال ایسی نہیں ہے کہ انسان کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر مجبور ہو،اس لیے یہاں اجازت نہیں دی جاسکتی البتہ جہاں مجبوری  ہے  وہاں گنجائش  ہوگی اورمجبوری کامطلب یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر کوئی بنیادی ضرورت موقوف ہو اوراس کے علاوہ کوئی اورمتبادل نہ ہو۔ تفسير القرطبي (10/ 419)الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت۔مشکاۃ المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)