کاروبار کی ممانعت پہلی اذان یامحلہ کی اذان کے بعد؟



سوال :۔ڈاکڑصاحب چند ضروری مسائل کے حل کے لئے آپ کی طرف مراجعت فرمارہے ہیں امید ہے کہ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں گے۔ جمعہ کےدن بیع وشراء سے جو منع کیا گیا ہے یہ ممانعت اذان اول سے لاگو ہوگی یا اذان ثانی سےیا و خول وقت سے؟اور یہ ممانعت کس درجے کی ہے یعنی اگر کوئی بیع وشراء کرہی لے تو اس بیع پر کیا حکم نافذہوگا؟ اور دوسرا مسئلہ یہ  ہے الحمداللہ ہمارے علاقے میں مساجد بہت زیادہ ہیںاور ہر مسجد میں جمعہ کی نماز مختلف اوقات میں پڑھائی جاتی ہے۔ اگر ہماری مسجد میں جمعہ کی نماز1:05پر ہو تو قریب والی مسجد میں نماز 1:30 پر ہوگی۔ اور ہمارے علاقے میں تقریبا3:00 بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی مسجد میں نماز پڑھی تو دوسری مسجد میں اذان اول ہوچکی ہوتی ہے تو کیا ہم اس دوسری مسجد کے آس پاس قائم دوکانوں سے کوئی چیزخرید سکتے ہیں؟
نیزیہ بھی بتائیں کہ اگر دوکانوں پر کام کرنے والے ملازم اپنی باریاں اس طرح مقرر کریں کہ ایک ملازم تو قریب والی مسجد میں جمعہ پڑھے اور دوسرا ملازم اس وقت دوسری مسجد میں نماز کو جائے جب پہلا شخص آجائے اور مقصد انکا یہ ہو کہ دوکان بھی کھلی رہے اور جمعہ بھی ہرشخص پڑھ آئےتو آیا اس طرح انکی باریاں مقرر کرنا از روئےشریعت کیساہے؟ اور ایسی دوکانوں سے بعد اذان جمعہ خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟                                        
سائل: ضیاءالرحمن بن عبدالرحمن
 
جواب: ۔جمعہ کی اذان  اول کے بعد  خرید وفروخت مکروہ تحریمی ہے۔ وقت داخل ہونے کے بعد اذان اول تک خریدوفروخت جائز ہےاور  اگر اذان اول کے بعد خرید وفروخت کرلی تو  بائع اور مشتری پر دیانۃ واجب ہے کہ وہ اس بیع کو فسخ کریں  اور توبہ و استغفار کریں۔اگربیع کو فسخ نہ کیا جائے  توعقد کے دونوں فریقوں  کی ملکیت ثابت ہوجائے گی کیونکہ بیع کے ارکان اورصحت کی شرائط  پوری ہیں اورجو کراہت ہے وہ بیرونی ہے مگر اس بیرونی عارض کی وجہ سےچونکہ بیع مکروہ تحریمی ہے اس لیے دونوں گناہ گار ہوں گے۔جمعہ کے دن مختلف مسجدوں سے وقت کے فرق  کےساتھ اذانیں ہوں توزبانی جواب پہلی اذان کا دیا جائے  اوراسی پہلی  اذان کے ساتھ جمعہ کی سعی واجب ہوجاتی ہے اورخریدوفروخت ممنوع ہوجاتی ہے مگر اس بارے میں ایک دوسراقول یہ ہے کہ محلے کی اذان کے ساتھ سعی واجب  ہوگی اورخریدوفروخت ممنوع ہوگی اوریہی دوسراقول زیادہ وزنی معلوم ہوتا ہے۔جو تاجر اپنے ملازمین کے لیے باریاں مقررکرتے ہیں یا خود ایسا کرتے ہیں  تاکہ عبادت بھی ہوجائے اورتجارت کا بھی حرج نہ ہووہ ناجائز حیلہ کرتے ہیں۔شامی  (5 / 101)