بچوں کومسجد لانا
سوال: میں کچھعرصہعرب میں رہا ہوں وہ لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو نماز کے لیے مسجد میں لاتے ہیں ، جب کہ پاکستان میں اس بات کو برا مانا جاتا ہےاور بری طرح بچوں کو مسجد میں ڈانٹا جاتا ہے جس سے بچے ڈر جاتے ہیں اور مسجد جانے سے دڑتے ہیں ، بات صرف اتنی سے ہے کہ جو بیج آج ہم بوئیں گے وہی کل کاٹیں گے، آج بچوں کی کم عمری میں نماز کی عادت نہیں ڈالی تو بڑے ہوکر بچے مسجد نہیں جاتے، عرب میں بچوں کو کم عمر ی میں لایا جاتا ہے تو بچے عمر کے ساتھ ساتھ اکیلے مسجدجانا شروع ہوجاتے ہیں، اب مسئلہ آپ کے سامنے ہے ، مجھے بتائیں کہ بچوں کو کیسے مسجد کی عادت ڈالی جائے جب کہ مسجد میں لانے سے منع کیا جاتا ہے۔ میں نے عملی طور دیکھا ہے کہ جو لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو مسجد ساتھ لاتے ہیں آج ان کے بچے تھوڑے سے بڑے ہیں تو خود مسجد آتے ہیں اور باجماعت نمازی ہیں ، آپ کی رہنمائی میری امید ہے،اللہ آپ کو اس کی جزا دے۔(ناصر محمود، اسلام آباد)
جواب:۔چھوٹے بچوں کواپنےساتھ مسجدلانے میں وہ فوائد ہیں جو آپ نے ذکرکیے ہیں ۔دوسری طرف مسجد شعائر اللہ میں داخل ہے اس لیے وہاں کاتقدس اورماحول بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے جب کہ بچوں کو لانے سے مسجد میں شوروشغب ہوتا ہے ،عبادات کاماحول متاثر ہوتا ہے اوراپنی کم عمری کی وجہ سے بچے بسااوقات مسجد میں گندگی بھی کردیتے ہیں ،اس وجہ سے حدیث شریف میں ہےکہ اپنی مسجدوں کوبچوں اور پاگلوں سے دوررکھو۔شریعت کاحسن ہے کہ اس نے فوائد کی بھی رعایت رکھی ہے اورنقصانات سے بچنے کابھی اہتما م کیا ہے چنانچہ فقہائے کرام کی ذکرکردہ تفصیل سے اس کی خوب وضاحت ہوجائے گی۔ فقہاء کے بیان کا حاصل یہ ہے کہ جو بچے اتنے ناسمجھ اور کم عمر ہوں کہ انہیں پاکی وناپاکی،اور مسجد اورغیرمسجد کا بالکل شعور نہ ہو اور ان سے مسجد ناپاک ہوجانے کا غالب گمان ہو توا نہیں مسجد میں لانا بالکل جائز نہیں ہے اور وہ بچے جو تھوڑی بہت سمجھ رکھتے ہیں اور ان سے مسجد کی بے حرمتی اور ناپاک ہونے کا قوی اندیشہ نہ ہوتو ایسے بچوں کو مسجد میں لانا درست تو ہے لیکن کراہت سے خالی نہیں ،اس لیے بہتر یہ ہے اسیے بچوں کو بھی نہ لایا جائے کیونکہ ان کی شرارتوں سے مسجد کا ادب واحترام باقی نہیں رہے گا ، دوسرے نمازیوں کی نماز میں بھی خلل آئے گااورخودسرپرست کوبھی اطمینان قلب نہیں رہے گا ۔البتہ ایسے بچے جو باشعور اور سمجھ دار ہوں ، مسجد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوں تو انہیں مسجد میں لانا بلا کراہت جائز ہے، بلکہ نماز کی عادت ڈالنے کے لیے انہیں مسجد میں لانا چاہیےالبتہ سرپرست کو ان کی نگرانی کرنی چاہیے ۔اب اگر ایسے نابالغ بچے متعدد ہوں تو ان کی صف مردوں سے الگ بنائی جائے اور اگر ایک دو ہوں، تو انہیں بڑوں کی صف میں بھی کھڑا کرسکتے ہیں، اس سے بڑوں کی نماز میں کوئی خرابی نہ آئے گی۔ (سنن ابن ماجۃ، کتاب المساجد / باب ما یکرہ في المساجد رقم: ۷۵۰) (درمختار ۲؍۴۲۹ زکریا) (تقریرات رافعي علی الدر ۲؍۸۶) (درمختار / باب الإمامۃ ۲؍۳۱۴ زکریا، کذا في البحر الرائق ۱؍۶۱۸ رشیدیۃ، مجمع الأنہر / فصل: الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ ۱؍۱۰۹ بیروت)وفي الرافعي: قال الرحمتي وربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال؛ لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال۔ (تقریرات الرافعي علی الدر المختار ۲؍۷۳ زکریا)