نباہ ممکن نہ ہوتو طلاق دینا
سوال: میں نے اپنی مطلقہ کزن سے شاد ی کی، میری پہلی شادی ہے ، میری کزن میرے ساتھ بیس دن گزارنے کے بعد اپنے والدین کے ساتھ عمرے پر گئی ، واپس آتے ہی ایک دو دن بعد ناراض ہو کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور طرح طرح کے الزامات لگائے۔ چونکہ میں شہر سے باہر ڈیوٹی کرتا ہوں اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے والدین کے ساتھ میرے گھر آئی اور اپنا سارا سامان اٹھا کر لے گئی جس کی خبر مجھے میرے بھائی نے بعد میں دی، اب تقریبا دو سال کا عرصہ ہوچکا ہے اور میں کئی بار اس کے گھر منانے کیلئے بھی جا چکا ہوں مگر اس کے والدین اس کو مجھ سے ملنے بھی نہیں دیتے، میری بیوی مجھ سے رابطہ کرتی ہے۔ مجھے ابھی تک ناراضگی کی وجہ بھی پتہ نہیں چل سکی اور نہ ہی وہ سیدھی طرح بات کرتے ہیں ، اس صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ لگتاہے کہ میری بیوی میرے ساتھ گھر میں رہنا بھی نہیں چاہتی لیکن دو ٹوک الفاظ میں مجھے طلاق یا خلع کا بھی نہیں کہتی۔میں نے اسے ہر طرح منانے کی کوشش بھی کرلی لیکن کوئی حل نظر نہیں آتا، اسے طلاق دینے سے ڈرتا ہوں کہ کہیں اللہ تعالی ناراض نہ ہوجائے مگر جوانی کی خواہش نفس بھی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس صورت میں بیوی کو کتنا وقت دیا جائے کہ بیوی راہ راست پر آجائےورنہ طلاق دے دی جائے؟یونس علی فیصل آباد
جواب:۔بیوی یااس کے والدین کی ناراضگی کے اسباب کیا ہیں،معلوم کیجیے۔اگرجائزوجوہات ہوں تو انہیں دور کیجیے۔بیوی کے والدین کاآپ کواپنی اہلیہ سے رابطہ نہ کرنے دینا نہایت براہے۔اگر براہ راست رابطہ ممکن نہ ہوتو کسی ذریعے اورواسطے سے کوشش کیجیے اوربہتر ہے کہ خاندان کے معززین کے ذریعے گھر بسانے کی کوشش کی جائے۔اس طرح کی کوششوں کے بعدبھی اگرمعاملہ حل نہ ہوتوآپ دوسرانکاح بھی کرسکتے ہیں اورآخری چارہ کارکے طورپر طلاق بھی دے سکتے ہیں،طلاق دینے سے گناہ نہیں ہوگا، مگر تین طلاقیں ایک ساتھ ہرگز نہ دی جائیں ۔سورہ نساء: 35شامی (3/ 227)