اولاد کاوالدین سے تقسیم جائیداد کامطالبہ
سوال: ۔جناب عالی! میں ایک ضعیف اور بیمار انسان ہوں ، اسی سبب سے میں نے اپنی جائیداد اپنی اولاد میں برابر تقسیم کرنے کے سلسلے میں سب سے چھوٹے بیٹے (ف) کو بلاکر اس کو نقد کی صورت میں حصہ دینا چاہا تو اس نے نافرمانی، بغاوت اور سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرعی احکام ماننے سے صاف انکار کردیا اورسب سے زیادہ حصہ لینے کی ضد کرنے لگا، میرے سمجھانے پر مجھ سے کہنے لگا کہ” تمہارے مرنے کے بعد اپنے بہن بھائیوں سے لڑکر اپنا حصہ لے لوں گا اور کہا کہ تم ایک بے ایمان انسان ہو ،اسی وجہ سے تمہارے گلے میں طوق پڑا ہوا ہے“ ، وہ بے روزگار ہے اور اپنی فیملی کو لے کر ہمارےساتھ ہی رہتا ہےاور مفت میں کھاتا پیتا ہے۔ اب چار ماہ سے مجھے میرے سب عزیزوں اور دوستوں میں بدنام کررہا ہے،اور گالیاں دیتا پھر رہا ہے۔
1۔ کیا اس کا اسلام سے ابھی تعلق برقرار ہے؟
2۔اور میں اپنی اس نافرمان اولاد کو کتنا حصہ دوں اور کیسے دوں؟
3۔کیا میں اسے عاق کرسکتا ہوں؟
میں بہت پریشان ہوں ، کیا کروں ، اپنے مثبت مشورے سے نوازیں۔(داکٹرایس ایم شاہ ، کراچی)
جواب۱۔ بیٹے کاجو رویہ اورسلوک آپ نے نقل کیا ہے،نہایت افسوسناک ہے۔اللہ پاک نےتو اپنے حق کے بعد والدین کےحق کاذکر کیاہےاورنبی کریم ﷺنےوالدین کواولادکےلیےجنتکےدروازےقراردیاہے۔بڑیبدنصیب اوربدقسمت ہے ایسی اولاد جو والدین کوستاتی ہے خصوصا والد کی ناراضگی کو تو اللہ تعالی نے اپنی ناراضگی قراردیا ہے۔بہرحال آپ صبرکادامن نہ چھوڑیں اوراس کے لیے دعاکرتے رہیں اورایسے رشتہ داروں یا دوستوں کے ذریعے اسےسمجھانے کی کوشش کریں جن کا کہا اس پر اثرکرتا ہو۔بیٹے کے جو افعال اوراقوال آپ نے نقل کیے ہیں وہ یقینا گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتے ہیں جس کا خمیازہ آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑتا ہے مگراس کی وجہ سے بیٹا دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہواہے۔
۲۔آپ جب تک حیات ہیں نافرمان بیٹا تو درکنار کسی فرماں داراولاد کابھی آپ کی جائیداد میں کوئی حق وحصہ نہیں ہے۔جوبیٹامطالبہ کرتا ہے ناحق کرتا ہے اوراگر آپ اس کے مطالبے پر ناچاہتے ہوئے اسے کچھ نوازدیں تو اس کے لیے حلال نہیں ہے کیونکہ مسلمان کامال دوسرے کے لیے دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہوتا ہے۔آپ نے چونکہ تقسیم کی خواہش ظاہر کی ہے اس لیے طریقہ کاریہ ہے سب جائیدا د تقسیم نہ کریں بلکہ اپنی متوقع ضروریات کے لیے جتنا چاہیں روک لیں،زوجہ حیات ہیں تو اسے بھی معقول حصہ دے دیں ،اگر آٹھواں حصہ اسے دے دیں تو مناسب رہے گا،اس کے بعد بقیہ مال اپنی تمام اولاد میں برابر برابرتقسیم کردیں اورقبضہ بھی سپرد کردیں۔برابری کامطلب یہ ہے کہ جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو بھی دے دیں ، نہ کسی کو محروم کریں اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کریں البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول شرعی وجہ سے مثلادین داری یا خدمت گزاری کی وجہ سے دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دینا چاہیں تودرست ہے۔بالغ نرینہ اولاد جو کمانے کے قابل ہواس کے اخراجات باپ پر لازم نہیں ہوتے ہیں ،اسی طرح اگر نافرمان اورفاسق اولادکو گزارے سے زیادہ نہ دیں تو ازروئے شرع جائز ہےاورکوئی گناہ نہیں تاہم بطورحق نہیں بلکہ اوراولاد کو مذکورہ بیٹے کی ایذاء وتکالیف سےبچانے کے لیے آپ سے دوسروں کے برابر یاکچھ زیادہ دیتےہیں تو آپ کی صواب دید پر ہے۔
3۔ زندگی میں اولاد کا والدین کی جائیداد میں حق نہیں ہوتا اوروالدین کی وفات کے بعدکوئی انہیں میراث سے محروم نہیں کرسکتا اس لیے عاق کرنے سے بیٹا وراثت سے محروم نہیں ہوگا البتہ یہ تدبیر جائز ہے کہ آپ اوراولاد میں جائیداد تقسیم کرکے ان کے حوالے کردیں اس طرح جب میراث میں کچھ بچے گانہیں تو مذکورہ بیٹاخودبخود محروم رہ جائے گا۔مشکوۃ المصابیح(1/261، باب العطایا، ط؛ قدیمی) شامی (5/696، کتاب الھبۃ، ط؛ سعید) البحرالرائق(7/288، کتاب الھبۃ، ط؛ رشیدیہ)