بیوی کس حدتک شوہرکوتلقین ونصیحت کرسکتی ہے



سوال:۔ بیوی اپنے شوہر کو نماز ادا کرنے کی تاکید یا نصیحت کرسکتی ہے اور کس حد تک؟ جب کہ شوہر بالکل بھی نماز کا پابند نہ ہو، اور مسجد بھی  گھر کے بالکل سامنے ہواور اگر کوئی شخص شراب پیتا ہو تو  بیوی کس حد تک منع  یا روک سکتی ہے؟ جب کہ شوہر غصے کا تیز  ہو ، یا بیوی بالکل چپ چاپ رہے  اور اللہ سے دعا کرے تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو؟( drfalsafa.bmc )
 
جواب:۔ بیوی اپنے شوہر کو برائی چھوڑنے اورنیکی  کرنےکی تلقین کرسکتی ہے،یہ حق تو ایک عام مسلمان کو بھی حاصل ہے، میاں بیوی کا رشتہ تو بہت  ہی قریبی  ہے اوراس کی تو بنیاد ہی ایک دوسرے کی  دینی خیر خواہی اورمدد اورتعاون   پرہے۔ چپ رہنے سے تو گھر کا ماحول ٹھیک نہ ہوگا کیونکہ نکاح کے موقع پر جو آیات پڑھی گئی تھیں ان میں اللہ پاک نے زوجین  کو یہ تاکید کی ہے  کہ سچی اورپکی بات زبان سے نکالوجب ایساکروگے تو اللہ پاک تمہارے کاموں کو درست کردے گا،یعنی ازدواجی زندگی کو بھی خوش گوار کردے گا۔نکاح کے خطبے میں  جو پڑھی جاتی ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ رشتہ داریوں کا خیال رکھو یعنی  ان کی ذمہ داریوں اورحقوق کو اداکرو۔میاں بیوی کا ایک دوسرے پر حق ہے کہ وہ ایک دوسرے کو وعظ ونصیح کریں تاہم قرآن کریم وعظ ونصیحت  اورتبلیغ ودعوت میں  حکمت کی قید لگاتا ہے   جس کا مطلب ہے کہ جو بات کی جائےمخاطب کی نفسیات،ذوق،عقلی سطح  اورطبیعت  کے مطابق اوروقت ،ماحول اورموقع   کی مناسبت سے  کی جائے، لہجے میں  محبت اورنرمی ہو سختی اورتیزی نہ ہومقصد اصلاح ہو ،توہین نہ ہو،بات سلیقے سے  اورحسن نیت سے ہو اورمتوقع فائدے سے زیادہ بڑے نقصان کااندیشہ نہ ہو۔یہ تمام باتیں حکمت  کے تحت  داخل ہیں اورہر مسلمان کو ان کی رعایت رکھنی چاہیے۔