بیویوں اوراولاد میں عدل نہ کرنا
سوال: میرے چاچا نے دو شادیاں کی ہیں ، وہ اپنی پہلی بیوی کو خود سے دور رکھتے ہیں اور ان کے بچوں کے سے بھی انہیں کوئی خاص محبت نہیں ہے، نہ ان کے پاس رہتے ہیں ، سارا وقت وہ اپنی دوسری بیوی اور بچوں کو دیتے ہیں ، میری چاچو کی شادی ان کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی، کیا ان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟(افشاں پروین)
جواب:۔ اگر کوئی شخص ایک سے زائد نکاح کرے تو اس پر اپنی سب بیو یوں اور اولاد کے درمیان عدل وانصاف اور مساوات کرنا ضروری ہے۔ حدیث شریف کی رو سے جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان برابری کا برتاؤ نہ کرے تو وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کاایک پہلو مفلوج /جھکا ہوا ہوگا۔ دونوں بیویوں میں بنیادی طور پر تین چیزوں میں برابری ضروری ہے:
(1) دونوں کو برابر خرچ دے، (2) شب باشی میں برابری کرے، یعنی اگر ایک رات ایک کے پاس ر ہتا ہے تو دوسری رات دوسری بیوی کے پاس رہے، (3) برتاؤ اور معاملات میں بھی دونوں کو ترازو کے تول برابر رکھے۔ایک سے اچھا اور دوسرے سے برا برتاؤ کیا تو عند اللہ مجرم ہوگا، اور آخرت میں جواب دہی ہوگی۔اولاد کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ہے کہ اللہ سے ڈرو اوراولاد کے درمیان عدل کا معاملہ کرو۔ان احادیث اورکی روشنی میں فقہاء اسلام کے کلام سے واضح ہے کہ آپ کے چچا کارویہ اپنی پہلی بیوی اوراس کی اولاد سے غیر منصفانہ ہے۔اگر چہ ان کی شادی کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی مگر جب انہوں نے شادی کرلی ہے تواب ان پر شریعت کے مطابق حقوق کی ادائیگی واجب ہے۔سنن ترمذی:3/439۔ہندیہ:1/340