رضاعی بہن بھائی کا نکاح
سوال:۔ میرے چچا جان (محمد اکرم والد محمد علی ، ضلع اوکاڑہ) اور پھوپھی کی شادی ایک گھر میں ہوئی تھی، میری پھوپھی جان کے گھر جب تیسرے بچے (بیٹی) کی پیدائش ہوئی تو کچھ وجوہات کی بناپر میری پھوپھی اور ان کے شوہر میں جھگڑا ہوگیا، اس جھگڑے کے دوران ان کی اس بیٹی کو میرے چچا جان کی بیوی(جن کے ہاں بھی بچے کی پیدائش ہوچکی تھی) اپنا دودھ پلاتی رہیں، ماشاء اللہ اب ان کی اولاد جوان ہوچکی ہے، ان دو گھروں کے افراد نے پھوپھی کی اس بیٹی جس کو میرے چاچا کی بیوی نے دودھ پلایا تھا، کا رشتہ اسی چچا کے بیٹے سے کرنے کا ارادہ کیا ہے، اس بارے میں نے چچا سے کہا کہ آپ لوگ شرعی لحاظ سے اس رشتہ کی بابت تصدیق کرلیں کہ آیایہ رشتہ ہوسکتا ہے یا نہیں تو چاچا نے کہا کہ میں نے پانچ سے سات علماء سے پوچھا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ رشتہ یقینی طور پر ہوسکتا ہے ، مؤرخہ 17/3/2017 ء کو جس دن یہ نکاح ہوا تو وہاں کے نکاح خواں (اہلسنت) نے نکاح پڑھانے سے انکار کردیا ، پھر چاچا نے ایک مولوی صاحب (اہلحدیث) سے فون پر بات کی ، جس نے وہاں کے ایک نکاح خواں کو بھیجا اور نکاح پڑھادیا ، خاندان کے افراد کے مطابق وہ بیٹی ان کے پاس 5 سے 10 دن رہی تھی اور میری چچی اس کو اپنا دودھ پلاتی رہی، دریں حالت استدعا ہے کہ قرآن وحدیث کے رو سے حوالوں کے ساتھ جامع رہنمائی فرمائیں ، مزید یہ کہ شریعت میں ایک بار یا دو بار دودھ پی لینے کی بابت نکاح کی کوئی گنجائش ہے یا بالکل نہیں؟(محمد شہزاد ولد محمد اسلم، ضلع اوکاڑہ)
جواب : ۔ آپ کی جس پھوپھی زادنےآپ کےچچا کی بیوی کا دودھ پیا ہے، اس کا نکاح چاچا کے بیٹو ں میں سے کسی کے ساتھ بھی جائز نہیں کیونکہ دودھ کا رشتہ سب میں ثابت ہوچکا ہے۔ دونوں پر فی الفور علیحدگی اور توبہ واستغفار لازم ہے۔ایک ، دو مرتبہ دودھ پینے سے بھی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے بلکہ قرآن وحدیث کی رو سے صرف اتنی مقدار دودھ پینے سے بھی رضاعتثابت ہوجاتی ہے جس مقدار کاپیٹ میں پہنچنا یقینی ہو۔[النساء: 23]ہندیہ:1/343