ٹیسٹ ٹیوب بےبی
سوال: ۔میری شادی کو14 سال ہوچکے ہیں ، میرا کوئی بچہ نہیں ہے، میری بیوی کا حمل ضا ئع ہوجاتاہے، اب ایک نئی ٹیکنالوجی آئی ہے جس میں مرد اور عورت کے مادہ کو کسی تیسری صحت مند عورت کے پیٹ میں رکھ دیتے ہیں، یہ اسی طرح ہے جیسے رضاعی ماں بچہ کو دودھ پلاتی ہے، جناب آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں ، کیا شریعت کی ر و سے کوئی آسانی پیدا کی جاسکتی ہے؟
جواب: ۔حصول اولاد کی یہ ٹیکنالوجی کئی دھائیوں قبل کی دریافت ہے۔پہلے پہل علماء انفرادی طورپر اس پر لکھتے رہےپھر اجتماعی مشاورت کے بین الاقوامی فقہی مجلسوں میں اس پر مباحثے اورقراردادیں منظور ہوئیں ،کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسے اپنی بحث کا موضوع بنایا اورابھی حال ہی وفاقی شرعی عدالت نے بھی اس کی ایک صورت کو جائزاور بقیہ کو ناجائز قراردیاہے۔آپ نے جو صورت دریافت کی ہے جس میں بے اولاد جوڑے کے نطفے اوربیضے کو طبی عمل کے تحت بارآور کیا جاتا ہے اورپھر نشوونما کے لیے کسی تیسری عورت کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے اورپیدائش کے بعد جوڑے کے حوالے کردیا جاتا ہے۔اس طریقے میں ایک انسان اپنے تولیدی مادے کے لیے ایک دوسرے انسان کو استعمال میں لاتا ہے جب کہ شرعا اس کے نطفے کامحل صرف اس کی جائز منکوحہ ہوسکتی ہے۔بعض عورتوں اس مقصد کے لیے اپنے رحم کا کرایہ بھی وصول کرتی ہیں ، نسب کے مسائل بھی اس سے جنم لیتے ہیں اورچونکہ مصنوعی اورغیر فطری طریقہ ہے،اس لیے جوبیماریاں اس عمل کے تحت منتقل ہوتی ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں،اس لیے یہ صورت ناجائز وحرام ہے۔جس صورت میں میاں بیوی کے نطفے اوربیضے کو خارجی طورپر باآور کرکے پھر بیوی کے رحم میں داخل کیاجاتا ہے ،اس طریقے میں اگر کسی اورسے طبی مدد نہ لی جائے تو اس کے جائز ہونے میں شبہ نہیں لیکن جب کسی اورسے طبی معاونت لی جاتی ہے تو اس میں شرعی پہلو سے کئی قباحتیں جمع ہوجاتی ہیں اس لیے میری رائے میں یہ صورت بھی ناجائز ہے۔بعض حضرات اس کو انسانی مفاد میں ہونے کی وجہ سےجائز سمجھتے ہیں لیکن میری رائے میں ہمیں انسانیت کے مفاد کافیصلہ اپنی عقل کےذریعے نہیں بلکہ شریعت کے طے کردہ احکام کے ذریعے کرنا چاہیے۔