نام رکھنے پر اختلاف کی وجہ سے ازدواجی زندگی بربادکردینا
سوال:۔محترم میں اپنے ایک خاندان کے فرد کی شادی کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرنا چاہتا ہوں۔شادی کے ایک سال بعد اللہ تعالی نے ایک بچے سے نوازا۔بچے کا نام رکھنےمیں جھگڑا ہو،ا باپ نے جاسم عمان اور ماں نے محمد عبداللہ نا م تجویز کیا۔بہرحال کچھ اختلاف کے بعد جاسم عثمان نام طے ہوگیا اوررجسٹر بھی ہو گیا۔ پھر ماں نے اس مسئلہ کو دین کی بے حرمتی کے طور پر ظاہر کیا کہ یہ نام نہ رکھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے۔بالآخر یہ جھگڑا دونوں کی جدائیگی پر ختم ہوا ،طلاق نہ ہوئی۔ دونوں کے والدین اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔اب لڑکی کا کہنا یہ ہے کہ اس کا شوہردین کے معاملہ میں حد سے نکل چکا ہے اور نکاح ختم ہو گیا ہے۔شوہر کہتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔اب یہ معلوم کرنا ہے کہ نکاح باقی ہے یا نہیں جبکہ شوہر بیوی کے دعوی کا انکار کرتا ہے۔(رشید احمد)
جواب:۔شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی بھی حربہ استعمال کرکے کسی طرح میاں بیوی میں پھوٹ ڈال دے۔اس مسئلے میں بھی یہی کہاجاسکتا ہے کہ بس شیطان اپنی تباہ کن کوشش میں کامیاب ہوگیا ہے اوراب بغلیں بجارہا ہے ورنہ نام کاکوئی مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا کہ اسے انا کا مسئلہ بناکر ازدواجی زندگی کو بربادکردیا جاتا۔عبداللہ نام پسندیدہ ضرور ہے مگر دیگر اچھے اچھے اسلامی نام بھی موجود ہیں اورانتہائی دین دارلوگ بھی وہ نام رکھتے ہیں اوردرست کرتے ہیں ۔ افسوس ہے کہ نام پرجھگڑے کی وجہ سے زوجین نے اتنی بڑی نعمت کھودی اوراس حد تک آگے چلے گئے کہ اب ایک فریق دوسرے فریق کو بے دین کہتا ہے اوراس کی وجہ سے رشتے کے ختم ہونے کامدعی ہے۔بیوی کااس نام پر اصرار اگر غلط تھا تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ شوہرسے بھی عورتوں کی نفسیات سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے ورنہ وہ معمولی بات پر اپنی ازدواجی زندگی برباد نہ کرتا۔جہاں تک رشتہ نکاح کا تعلق ہے تو وہ برقرارہے کیونکہ شوہر نے طلاق کے الفاظ استعمال کرکے اسے ختم نہیں کیا ہے۔بیوی کایہ دعوی کہ اس کا شوہربے دین ہوچکا ہے،اگر اس وجہ سے ہے کہ شوہر نے اس کا تجویز کردہ نام نہیں رکھا تو اسے بے دینی نہیں کہاجاسکتا اوراگر کوئی اوروجہ ہے تو اسے ثبوتوں کے ساتھ سامنے لاناچاہیے۔