شاملات کو مشترکہ ضرورت کے لیے کام میں لانا



سوال :- میرا تعلق آزاد کشمیر کے ایک پسماندہ گاؤں سے ہے۔ یہ گاؤں تقریبا ۱۵۰ گھرانوں پر مشتمل اور ایک چھوٹی سی پہاڑی کے ڈھلوان پرپھیلاہوا ہے۔اس پہاڑی کے عین اوپر ایک چھوٹا سا مزار ہے۔صاحب مزار کی قبر چار دیواری کے اندرہے اور اوپر سائبان ہے۔لیکن چار دیواری کے باہر مزار کے ارد گرد کافی ساری بنجر پہاڑی زمین جو اہلیان گاؤں کے بیشتر خاندانوں کی مشترکہ ملکیت ہے اسے اہلیان گاؤں مزار کے احترام میں عرصہ دراز سے (اسی سے سو سال) استعمال میں لانے سے گریزاں ہیں ۔ البتہ ایک خاندان جو باہر سے آ کر گاؤں میں آباد ہوا جس کا اہلیان گاؤں اور صاحب مزار کے خاندان سے کوئی تعلق یا رشتہ نہیں اور ان کا پیشہ اہلیاں گاؤں کے بال کاٹنا اور حجامت بنانا ہے۔وہ ہفتہ میں ایک آدھا بار اس مزار کی از خود صفائی ستھرائی کی بدولت اس زمین پرقدرتی طور پر خود رودرختوں کی لکڑیوں گھاس اور بکریوں وغیرہ کے چارہ سے مستفید ہوتا آ رہا ہے۔اب گزشتہ چند سالوں میں اس خاندان نے اپنے مرنے والے مرحومین کو اس زمین میں دفن کر کے چند قبریں بھی بنا لی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ گاؤں کے لیے وقف کردہ قبرستان کی زمین میں مزید قبروں کی گنجائش نہیں۔ لہذا معززین گاؤں کی خواہش ہے کہ مزار کے ارد گرد زمین کو گاؤں کے قبرستان کے لئے استعمال میں لایا جائے۔ لہذا قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں کہ آیا اس زمین کو قبرستان کے مقصد کے لئے استعمال میں لانا شرعی طور پر جائز ہے؟محمد اعظم بھٹی، اسلام آباد۔
 
جواب:۔ مزار کے ارد گرد کی زمین چوں کہ گاؤں والوں کی ملکیت ہے، اس لیے وہ قبرستان کے مقصد کےلیے مذکورہ زمین استعمال میں  لاسکتے ہیں تاہم اگر زمین کسی خاص خاندان یا خاندانوں کی  ذاتی ملکیت ہو،گاؤں کی مشترکہ ضروریات کےلیے نہ ہوتو پھر ان خاندانوں کی اجازت لازم ہوگی،اسی طرح اگر زمین  کسی کی  ذاتی ملکیت بھی نہ ہواورگاؤ ں کی مشترکہ ضروریات کے  لیے بھی نہ ہوجسے شاملات کہتےہیں  بلکہ کسی نے بنجر اورغیرآباد زمین کو آباد کردیا ہوتو پھر آباد کارشخص کی اجازت کے بغیر اس میں اس میں کوئی تصرف کرناجائز نہیں۔محیط برہانی:۶؍۲۱۷